Latest News

کس کی آزادی کیسی آزادی : حسام صدیقی۔

کس کی آزادی کیسی آزادی : حسام صدیقی۔

اداریہ
جدید مرکز، لکھنؤ
مؤرخہ ۲۸ اگست تا ۳ ستمبر، ۲۰۲۲
ملک نے اس بار پندرہ اگست کو آزادی کی پچھتّرویںسالگرہ بڑی دھوم دھام سے منائی۔ وزیراعظم نریندر مودی نے ہر گھر ترنگا کی مہم چھیڑی تو ملک کے پچیس کروڑ سے  زیادہ لوگوں نے اپنے اپنے گھروں پر جھنڈا بھی پھہرایا۔لال قلعہ کی فصیل سے تقریر کرتے ہوئے وزیراعظم مودی نے ملک کو مضبوط بنانے اور ہر طرف ترقی کرنے کی بات کہتے ہوئے ۲۰۴۷ کا ایجنڈا بھی بتا دیا۔ اس ایجنڈے کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ ملک کو خواتین کی عزت اور احترام میں کوئی لاپروائی نہیں برتنی ہے۔مودی خواتین کی عزت اور احترام کرنے کی بات نہ بھی کرتے تو بھی بھارت وہ ملک ہے جہاں یہ مانا جاتا ہے کہ جہاں خواتین کا احترام ہوتا ہے وہاں دیوتا رہتے ہیں۔مودی کی لال قلعہ کی تقریر ختم ہونے کے بمشکل دو گھنٹے کے اندر ان کی پارٹی کی گجرات حکومت نے بلقیس بانو کی اجتماعی آبروریزی کرنے اور ان کے گھر کے سات افراد کو قتل کرنے میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے گیارہ مجرموں کو رہا کردیا۔ کوئی کچھ بھی کہے، یہ رہائی وزیراعظم مودی کی مرضی کے بغیر ہوہی نہیں سکتی تھی۔ تو کیا لال قلعہ کی فصیل سے خواتین کے احترا م کے سلسلے میں مودی کا بیان محض ملک کو فریب میں مبتلا کرنے والا تھا؟ آزادی کی پچھتّرویں سالگرہ پر بلقیس ان کے کنبہ کے لوگ اور ان سے ہمدردی رکھنے والے لاکھوں لوگ آزادی کا جشن کیسے مناسکتے ہیں؟
بلقیس بانو کے ریپسٹ اور سات لوگوں کے قاتلوں کو گجرات حکومت نے رہا کیا تو اس کے بعد اس سے بھی شرمناک بات یہ ہوئی کہ وشوہندو پریشد اور بی جے پی کے لوگوں نے مل کر سبھی قاتلوں اور زانیوں کو ہار پھول پہنا کر ان کی عزت افزائی کی اور مٹھائی کھلائی۔ آج تک کی رپورٹر گوپی گھانگھر نے اپنی رپورٹ میں صاف کہا کہ سبھی گیارہ مجرموں کو وشو ہندو پریشد کے دفتر میں لے جاکر ان کی عزت افزائی کی گئی۔ آخر یہ شرمناک کام کیوں ہوا؟ جواب صرف اتنا ہےکہ بلقیس مسلمان ہیں اور سرکار میں بیٹھے لوگ ملک کے مسلمانوں کو ایک پیغام دینا چاہتے ہیںکہ آزاد ہندوستان میںان کی کیا اوقات ہے۔ لیکن اگر اس طرح ریپ کرنے والوں کو چھوٹ دی جاتی رہی تو یہ معاملہ صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رہے گا۔ زیادہ دن نہیں ہوئے ہیں جب نوئیڈا کی گرینڈاومیکس سوسائٹی میں شری کانت تیاگی نام کے ایک دبنگ نے اگروال سماج کی ایک خاتون کے سا تھ نہ صرف سرعام بدسلوکی کی بلکہ انتہائی بھدّی گالیاں بکیں، تیاگی بھی بی جے پی لیڈر ہے تو کیا بی جے پی والے عورت کا احترام اسی طرح کرتے ہیں۔ گجرات کو دیکھ کر مغربی اترپردیش کا تیاگی سماج بھی اپنے دبنگ شری کانت کی حمائت میں اترآیااور مہا پنچائت کرڈالی۔
کوزی کوڈکیرل کے ڈسٹرکٹ سیشن جج ایس کرشنا کمار نے تو بے شرمی اور خاتون کی توہین کرنے کی ساری حدیں اس وقت توڑ دیں جب اس نے چھیڑ خانی کرنے کے ایک ملزم سی چندرن کو یہ کہہ کر ضمانت دے دی کہ چندرن اچھی طرح جانتے تھے کہ شکائت کرنے والی خاتون شیڈیولڈ کاسٹ(دلت) طبقے کی ہے اور کوئی بڑی ذات کا ہندو لڑکی کو چھو ہی نہیں سکتا۔جج نے اسی فیصلےمیں یہ بھی کہا کہ لڑکی نے سکسوئلی بھڑکانے والی ڈریس پہن رکھی تھی، ایسے میں کسی نے اسے اگر چھیڑ بھی دیا ہو تو غلطی لڑکی کی ہی ہے۔ سنگین قسم کے جرائم کے ملزمان اور سزا یافتہ مجرموں کی عزت افزائی کرنے کا سلسلہ بی جے پی نے ہی شروع کیا ہے۔ جھارکھنڈ میں لنچنگ کے ملزم ضمانت پر چھوٹ کر آئے تو اس وقت مودی کی وزارت میں وزیر رہے جینت سنہا نے ہار پھول پہنا کر ان کا استقبال کیا۔اترپردیش کے اناؤ میں لڑکی کی عزت لوٹنے والے کلدیپ سینگر کو بچانے کی بی جے پی سرکار نے ہر ممکن کوشش کی لیکن عدالت کی مداخلت کے بعد اسے جیل جانا پڑا۔ سابق مرکزی وزیر چنمیانند کی عیاشیوں کا ویڈیو وائرل ہوا، ہنگامہ مچا توانہیں جیل جانا پڑا۔ لیکن بعد میں اترپردیش پولیس اور سرکار نے ایسا تانا بانابنا کہ شکائت کرنے والی لڑکی کو ہی جیل بھیج دیا گیا۔ راجستھان میں شمبھوریگر نام کے درندے نے افرازل نام کے مزدور کو دن دہاڑے کلہاڑی سے کاٹ کر قتل کیا اور جلا دیا۔ چند دنوں بعد رام نومی کا جلوس نکلا تو ہندوتو کے فرضی ٹھیکیداروں نے شمبھوریگر کی باقاعدہ جھانکی بنا کر اس میں شامل کردیا۔ اتنا ہی نہیں کراؤڈ فنڈنگ کے ذریعہ اس کی بیوی کے اکاؤنٹ میں لاکھوں روپئے بھی اکٹھا کروائے گئے اور اب گجرات کا معاملہ سامنے ہے۔آخر بی جے پی اور اس کی سرکاریں ملک میں کیسا سماج بنانا چاہ رہی ہیں۔
حیرت اس بات کی ہے کہ گجرات کے اس شرمناک واقعہ پر خود کو خواتین کی حمائتی بتانے والی بڑے عہدوں پر بیٹھی خواتین کے منھ سے ایک لفظ نہیں نکلا صرف ایک تلنگانہ کاڈر کی۲۰۰۰ کی آئی اے ایس افسر سمتا سبروال نے ہی ٹوئیٹ کرکے کہا کہ ’بلقیس کے آزاد سانس لینے کا حق چھیننے کے بعد ہم خود کو ایک آزاد راشٹر نہیں کہہ سکتے‘۔ اسمتا سبروال کے علاوہ ملک کے سب سے بڑے عہدے پر بیٹھی صدر جمہوریہ دروپدی مورمو، ان کے نام پر لوک سبھا میں ہائی وولٹیج ڈرامہ کرنے والی مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی، مودی وزارت میں شامل درجن بھر سے زیادہ خواتین، قومی خواتین کمیشن کی چیئر پرسن، مختلف ہائی کورٹوں میں بیٹھی جج صاحبان، کوئی کچھ بولنے کو تیارنہیں ہے۔ اسی سے اندازہ لگتا ہے کہ پچھتّر سال کی آزادی کے آخری آٹھ دس سالوں میں ملک کو کیسا بھارت بنادیا گیا ہے۔ اسمتا سبروال کے علاوہ نربھیا کی والدہ جو کہ اس قسم کے درد سے گزر چکی ہیں انہوں نے بھی بلقیس کے ریپسٹوں کو چھوڑے جانے پر سخت اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’جیل سے نکلنے کے بعدان درندوں کا کچھ اس طرح استقبال کیا گیا جیسے وہ کوئی جنگ جیت کر ملک کی سرحد سے و اپس آئے ہوں۔جو لوگ گجرات کے درندوں سے ہمدردی رکھ رہے ہیں ان سے ہم صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ اگر ایسے درندوں کی مدد اور ہمدردی کی جاتی رہی تو اس قسم کے درندوں کے ناپاک ہاتھ کسی کی بھی بہن بیٹیوں تک پہونچ سکتے ہیں۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر