Latest News

بدایوں کی قدیم جامع مسجد میں’شیولنگ‘ کا دعویٰ، ہندوسبھا کی درخواست کورٹ میں سماعت کےلیے منظور، فریقین کو جواب داخل کرنے کا حکم، سلطان شمس الدین التمش کی مسجد کو نیل کنٹھ مہادیو مندرتوڑ کر بنانے کا الزام۔

بدایوں کی قدیم جامع مسجد میں’شیولنگ‘ کا دعویٰ، ہندوسبھا کی درخواست کورٹ میں سماعت کےلیے منظور، فریقین کو جواب داخل کرنے کا حکم، سلطان شمس الدین التمش کی مسجد کو نیل کنٹھ مہادیو مندرتوڑ کر بنانے کا الزام۔
بدایوں: وارانسی کے گیان واپی کمپلیکس میں شیولنگ ہونے کے دعوے کے بعد اب بدایوں کی جامع مسجد میں نیل کنٹھ مہادیو مندر ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں بدایوں کی سول کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی جسے سول کورٹ نے قبول کر لیا ہے۔ اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا (اے بی ایچ بی) کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے، ایک سول عدالت نے بھی جمعہ کو مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔ٹائمز آف انڈیا کی خبر کے مطابق درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بدایوں میں واقع جامع مسجد کمپلیکس درحقیقت ایک ہندو بادشاہ کا قلعہ تھا۔درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ جامع مسجد کا موجودہ ڈھانچہ نیل کنٹھ مہادیو کے ایک قدیم مندر کو منہدم کرکے بنایا گیا تھا۔عدالت نے جامع مسجد کی انتفاضہ کمیٹی، اتر پردیش سنی وقف بورڈ، اتر پردیش کے محکمہ آثار قدیمہ، مرکزی حکومت، اتر پردیش حکومت، بدایوں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور ریاست کے پرنسپل سکریٹری سے بھی اس سلسلے میں اپنا جواب داخل کرنے کو کہا ہے۔معاملے کی اگلی سماعت 15 ستمبر کو ہوگی۔ یہ عرضی 8 اگست کو دائر کی گئی تھی۔وہیں اس معاملے پر انتظامیہ کمیٹی کے رکن اور مسلم فریق کے وکیل اسرار احمد کا کہنا ہے کہ یہاں مندر کا کوئی وجود نہیں تھا اور نہ ہی انہوں نے مندر کے وجود سے متعلق کوئی کاغذات داخل کیے ہیں۔ عدالت نے کیس میں ۱۵تاریخ ڈال دی ہے۔ یہ مسجد شمس الدین التمش نے بنوائی تھی جب کہ دوسری طرف کا کہنا ہے کہ یہ مغل حملہ آوروں نے بنوائی تھی۔ ایسا کوئی گزٹئیر نہیں ہے، جس میں یہ معلوم ہو کہ یہاں کوئی مندر تھا۔مورخ اور شاعر ڈاکٹر مجاہد ناز کا کہنا ہے کہ ۱۲؍ ویں عیسوی میں غلام خاندان کے بادشاہ التمش نے اپنی بیٹی رضیہ سلطانہ کی پیدائش کے موقع پر یہ مسجد تعمیر کروائی تھی۔ یہ مسجد تقریباً ۸۴۰سال پرانی ہے اور آج بھی اسی مضبوطی کے ساتھ کھڑی ہے۔ ہندو فریق کا دعویٰ بالکل غلط ہے۔ یہ سب سیاسی فائدہ اٹھانے اور ہندو مسلم ووٹوں کو پولرائز کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے، اس پورے واقعہ سے ایک مخصوص طبقہ پریشان ہو رہا ہے۔واضح رہے کہ بدایوں کی جامع مسجد ملک کی ۶؍ بڑی مساجدوں میں سے ایک ہے۔ جامع مسجد اپنی شاندار عمارت کی بناء پر مشہور ہے، جس زمانے میں مسجد شمسی کی بنیاد پڑی اس زمانے میں سینکڑوں علماء، صاحب کمال عرب و عجم، ایران، یمن اور حجاز سے آکر بدایوں میں اقامت پذیر ہورہے تھے۔اسی زمانے سے بدایوں کو قبۃ الاسلام ہونے کا فخر بھی حاصل ہے۔ سلطان شمس الدین التمش دہلی کے تخت پر فروکش ہونے سے قبل بدایوں کے گورنر تھے جنہوں نے اپنے عہدۂ گورنری میں اس عظیم الشان مسجد کی بنیاد ڈالی۔جامع مسجد شمسی بدایوں کو شمالی ہند میں سب سے پہلی مایہ ناز مسلم یادگار ہونے کا فخر بھی حاصل ہے۔ اس کی وسیع اور خوش نما عمارت، لمبے چوڑے آثار اور جابجا قرآنی آیات دیکھنے سے اس کی تاریخی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔عظیم الشان مسجد کی مثال نہ صرف بدایوں بلکہ دور دور تک نہیں ملتی یہ مسجد بھی دہلی کی جامع مسجد اور تاج محل آگرہ کی یاد تازہ کراتی ہے۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر