Latest News

موہن بھاگوت کی مسجد میں حاضری: معصوم مرادآبادی۔

موہن بھاگوت کی مسجد میں حاضری۔

معصوم مرادآبادی۔ (مضمون نگار مُلک کے ممتاز صحافی ہیں)
دہلی کی ایک مسجد اور مدرسے میں آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کی حاضری نے بحث ومباحثے کے کئی در ایک ساتھ کھول دئیے ہیں۔یہ پہلا موقع ہے کہ آرایس ایس کے کسی سربراہ نے مسجد اور مدرسے میں قدم رنجہ فرمایا ہے۔یہ حاضری ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے جب ملک میں مسجدوں اور مدرسوں کے خلاف زبردست مہم چل رہی ہے۔یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس مہم کے پیچھے آرایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کا ہی ہاتھ ہے، کیونکہ وہی مدرسوں کو دہشت کے اڈے اور تاریخی مسجدوں کو مندر قرار دے کر ان کے خلاف عدالتوں میں چارہ جوئی کررہی ہیں۔ مدرسوں کا سروے شروع ہوچکا ہے اور بی جے پی کے اقتدار والی ریاست آسام میں کئی مدرسوں کو دہشت کی تعلیم دینے کے الزام میں بلڈوزر سے منہدم کیا جاچکا ہے۔بابری مسجد کے بعد اب اس قسم کی چارہ جوئی بنارس کی گیان واپی مسجد،متھرا کی شاہی عیدگاہ اور بدایوں کی جامع مسجد شمسی کے خلاف بھی عدالتوں میں ہورہی ہے اور مسلم فریق کے دلائل لگاتار مسترد کئے جارہے ہیں۔ ایسے میں موہن بھاگوت نے نئی دہلی میں ایک ایسی مسجد کے امام سے ملاقات کی ہے جس کی سنگھ نوازی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملاقات کے بعد متنازعہ امام عمیرالیاسی نے موہن بھاگوت کو" راشٹر پتا" (بابائے قوم) کے خطاب سے بھی نوازا۔
ملاقات کے بعدجب مذکورہ امام سے ’انڈین ایکسپریس‘ کے نامہ نگار نے پوچھا کہ ”کیا انھوں نے بھاگوت سے مسلمانوں کو درپیش گیان واپی مسجدجیسے مسائل پر بھی گفتگو کی ہے“ تو الیاسی نے بڑی معصومیت سے جواب دیاکہ ”ہم منفی باتوں پر اپنی توانائی کیوں ضائع کریں، ہمیں ہم آہنگی پر زور دینا چاہئے۔“ظاہر ہے جس امام کے نزدیک گیان واپی مسجد جیسے مسلم مسائل منفی باتوں کے ذیل میں آتے ہوں، اس کے بارے میں مزید کچھ کہناخود اپنی توانائی ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ ہاں الیاسی نے اس ملاقات کے بعد یہ ضرور تسلیم کیا کہ ان کے آباء واجداد ہندو تھے اور وہ خود کوبھگوان کرشن کے خاندان کا وراث سمجھتے ہیں۔سبھی کومعلوم ہے کہ عمیرالیاسی کے والد جمیل الیاسی اس مسجد کے امام تھے اور وہ بھی عمیرالیاسی کی طرح اسرائیل کے آنجہانی وزیراعظم شمعون پیریز کو ایک ایسے موقع پر ’امن کا پیامبر‘ قرار دینے تل ابیب تک گئے تھے جب فلسطینیوں پر اسرائیلی درندگی اور بربریت اپنے عروج پر تھی۔
موہن بھاگوت نے الیاسی سے ملاقات کے بعدان کے ہمراہ دہلی کی آزادمارکیٹ میں واقع الیاسی کے ہم مشرب مدرسہ تجوید القرآن کا بھی دورہ کیا اور وہاں کے طلباء سے کہا کہ عبادت کے طریقے الگ ہوسکتے ہیں، لیکن ہمیں سبھی مذاہب کا احترام کرنا چاہئے۔ ان ملاقاتوں کے بارے میں آرایس ایس کی طرف سے کہا گیا ہے کہ آرایس ایس سربراہ الگ الگ طبقوں سے ملتے رہتے ہیں اور مکالمہ قایم کرتے ہیں۔ یہ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ واضح رہے کہ اس ملاقات سے پہلے کچھ مسلم دانشوروں نے بھی نئی دہلی میں واقع آرایس ایس دفتر ’اداسین آشرم‘ میں موہن بھاگوت سے ملاقات کی تھی۔ ان میں کچھ سابق نوکر شاہ بھی شامل تھے۔ ان دانشوروں کا کہنا ہے کہ اس ملاقات کا مقصد آرایس ایس اور مسلمانوں کے درمیان رابطوں کو مضبوط کرنا ہے تاکہ غلط فہمیاں دور ہوسکیں۔حالانکہ بند کمرے میں ہوئی اس ملاقات کے حوالے سے سوشل میڈیا پر طرح طرح کے سوالات کھڑے کئے جارہے ہیں اور ان ’دانشوروں‘کی معتبریت پربھی سوالات کے گھیرے میں ہے کیونکہ ان میں بعض ایسے لوگ بھی شامل تھے جو اپنی سیاسی بے روزگاری دور کرنے کے لیے کئی برسوں سے ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں، لیکن انھیں کامیابی نہیں مل پارہی ہے، اب ایسا لگتا ہے کہ وہ اب اپنے مقصد کے حصول کے لیے آرایس ایس کے ایجنڈے پر کام کرنے پر آمادہ ہوگئے ہیں۔
ہم آرایس ایس کے ساتھ مسلمانوں کے مذاکرات کے قطعی مخالف نہیں ہیں۔ ہم بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو مسلمانوں کے خلاف پھیلائی گئی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ مسلمان اس ملک میں باعزت شہری کی طرح زندگی گزارنے کا خواب پورا کرسکیں، لیکن اس سے پہلے ہمیں چند بنیادی باتوں پر غور کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے ان عناصر کی نشاندہی ضروری ہے جنھوں نے برادران وطن کے ذہنوں میں مسلمانوں کے تعلق سے اس حد تک غلط فہمیاں پیدا کردی ہیں، کہ وہ ان کا وجود مٹانے پر کمربستہ ہوگئے ہیں۔ ان عناصر نے حالیہ عرصہ میں گودی میڈیا کے توسط سے مسلمانوں کے خلاف اتنا زہر پھیلا دیا ہے کہ ملک میں مسلمانوں کا جینا حرام ہوگیا ہے۔ حکومت چاہتی تو اس زہریلے مسلم دشمن پروپیگنڈے کوروک سکتی تھی، مگر اپنے ووٹ بینک کو خوش کرنے کے لیے اس نے کوئی پیش قدمی نہیں کی۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے بھی اس پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے اس کے لئے ان سیاسی پارٹیوں کو موردالزام قرار دیا ہے جو اپنے سیاسی فائدے کے لیے اس پروپیگنڈے کو فروغ دیتی رہی ہیں۔ پچھلے دنوں نپور شرما کی دریدہ دہنی کی وجہ سے جب پوری دنیا میں ہندوستان کی رسوائی ہوئی تو آرایس ایس میں موجود کچھ لوگوں کو یہ احسا س ہونے لگا کہ اب نفرت کا کاروبار حد سے گزر نے لگا ہے۔لہٰذا اسے روکنا بھی ضروری ہے۔مسلمانوں کے ساتھ پینگیں بڑھانے کی حالیہ سرگرمی اسی کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔
 آرایس ایس کے ایک سینئر پرچارک کا کہنا ہے کہ”آرایس ایس چاہتا ہے کہ سماج میں سبھی لوگ امن اور تعاون کے ساتھ رہیں۔ ہندومسلم تنازعات کو ختم کرنے کے لیے آرایس ایس یہ کوششیں پندرہ سولہ برسوں سے کررہا ہے۔ اسی سلسلہ میں آرایس ایس سربراہ نے کہا تھا کہ ہمارا اور مسلمانوں کا ڈی این اے ایک ہے۔ہر مسجد میں شیولنگ نہیں ڈھونڈنا چاہئے۔“پرچارک نے مزید کہا کہ ”یہ ساری آوازیں ہندو سماج کی ذہن سازی کے لیے ہیں۔ انھیں یہ باور کرانے کے لیے کہ مسئلہ کا حل یہ نہیں ہے کہ مسلمان یہاں سے بھگادئیے جائیں۔ ہندوسماج کی ذہن سازی کرنا کہ وہ اپنے ہی بھائی بندھو ہیں۔“ پرچارک نے یہ بھی کہا کہ”آرایس ایس شروع سے کہتا رہا ہے کہ بھارت میں رہنے والے سبھی ہندو ہیں۔جو یہاں مسلمان ہیں، ان کے اجداد اور ہندوؤں کے آباواجداد ایک ہی تھے۔ مسلم سماج کو ذہنی طورپر تیار کرنے کا کام تو کافی پہلے سے ہی کیا جارہا ہے۔“آرایس ایس پرچارک کے کسی قدر طویل بیان کو یہاں نقل کرنے کا مقصد آپ کو یہ سمجھانا ہے کہ آرایس ایس مسلمانوں کے تعلق سے کن خطوط پر کام کررہا ہے اور اس کا مسلمانوں کے بارے میں کیا نظریہ ہے۔
آرایس ایس کی نہ جانے کیامجبوری ہے کہ وہ مسلمانوں سے جب بھی مکالمہ قایم کرنے کی کوشش کرتا ہے تواس کی نظرانتخاب ہمیشہ ان لوگوں تک پہنچتی ہے جن کی مسلم سماج میں کوئی حیثیت نہیں ہے اور وہ براہ راست یابالواسطہ طورپر آرایس ایس کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔ظاہر ہے آرایس ایس یہ کام نمائشی طورپر انجام دینا چاہتا ہے۔اگر وہ مسلمانوں کے تعلق سے سنجیدہ ہوتا تو سب سے پہلے اپنے ’فرنج ایلی منٹ‘کو حاشیہ پر پہنچاتا جن کی وہ سرپرستی کرتا رہا ہے۔جن لوگوں نے آزادی کے بعد مسلسل مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی ہے، وہ سب کے سب آرایس ایس کے منظور نظر ہیں۔عجیب منطق ہے کہ جوکام آرایس ایس کو شدت پسند ہندوؤں کے درمیان جاکر کرنا چاہئے وہ مسلمانوں کے درمیان کرتاہے اور اس کام کے لیے ایسے نام نہاد مسلمانوں کا انتخاب کیاجاتا ہے، جن کی مسلمانوں کے درمیان کوئی اہمیت اور وقعت ہی نہیں ہے۔اگر واقعی آرایس ایس اپنے کام میں سنجیدہ ہے تو اسے ان عام مسلمانوں کے دروازوں پر دستک دینی چاہئے جو گزشتہ 75 سال سے بدترین مذہبی تعصب،نفرت اور قتل وغارتگری کا شکار ہیں۔ ان میں پہلا نام بلقیس بانو کا ہے جس کے بدترین مجرم " اچھے کردار " کی بنیاد پر حال ہی میں آزاد کردئیے گئے ہیں۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر