Latest News

مدارس کا سروے اور اس کی مخالفت: حسام صدیقی

مدارس کا سروے اور اس کی مخالفتحسام صدیقی
اداریہ 
جدید مرکز، لکھنؤ
مؤرخہ ۱۸ تا ۲۴ ستمبر، ۲۰۲۲
اترپردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ سرکار نے تمام غیر تسلیم شدہ مدارس کا سروے کرانے کا فیصلہ کیا اور آناً فاناً اس فیصلے پر عمل بھی شروع ہوگیا۔ جمعیت العلماء ہند کے دونوں گروپوں یعنی چچا مولانا ارشد مدنی کی جمعیت اور بھتیجے مسعو د مدنی کی جمعیت نے اکٹھا ہو کر دہلی میں چھ ستمبر کو مختلف مدارس کو چلانے والوں کی ایک میٹنگ بلائی۔ میٹنگ میں کہا گیا کہ مدارس کے سروے کے طریقے پر انہیں سخت اعتراض ہے کیونکہ یہ طریقہ غیرآئینی بھی ہے۔ ا سکے بعد دارلعلوم دیوبند کے نائب مہتمم مفتی راشد اعظمی نے کہا کہ سروے کے بہانے مدارس کو ایک سازش کے تحت نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ہمیں مدارس میں سرکاری دخل اندازی کسی بھی صورت میں برداشت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ  مدرسے آئین کے مطابق چل رہے ہیں۔ اس قسم کا سخت بیان دینے والے مفتی راشد اعظمی بھول گئے کہ ان کے مدرسے بھلے ہی آئین کے مطابق چل رہے ہوں گزشتہ آٹھ سالوں سے ملک تو آئین کے مطابق نہیں چلایا جارہا ہے اگر ملک آئین اور جمہوری اصولوں پر چل رہا ہوتا تو تمام غیر بی جے پی سرکاروں کے خلاف سی بی آئی، ای ڈی اور انکم ٹیکس جیسی مرکزی ایجنسیاں دن رات سرگرم نہ رہتیں اور یہ بھی نہ ہوتا کہ عوام اپنے ووٹ کےذریعہ کسی پارٹی کو جتا کر ریاستوں کی سرکاریں بنواتے لیکن چند مہینوں میں ہی ان سرکاروں پر بی جے پی کا قبضہ نہ ہوجاتا۔
مدارس کے خلاف سرکاری طور پر زہر اگلنے کا کام ۱۹۹۸ سے اس وقت شروع ہوا تھا جب لال کرشن اڈوانی ملک کے وزیرداخلہ بنے تھے۔ مدارس دہشت گردی کی نرسری ہیں یہ افواہ اڈوانی نے اڑوائی تھی۔ چھ سال تک وہ ملک کے وزیرداخلہ اور نائب وزیراعظم رہے لیکن  چھ سالوں میں ایک بھی مدرسہ پر دہشت گردی سکھائے جانے کا الزام ثابت نہیںکرسکے ان کے ماتحت وزارت داخلہ اور بھارت سرکار کی تمام خفیہ ایجنسیاں مل کر ایک بھی ثبوت ملک کے سامنے نہیں پیش کرسکیں۔ اب مرکز میں مودی کی تو کئی ریاستوں میں انہی کی بی جے پی کی سرکاریں ہیں اس لئے ایک بار پھر  مدارس پر حملے شروع ہوئے ہیں۔ آسام کی بی جے پی سرکار نے پہلے سرکاری مدارس بند کرائے پھر غیر سرکاری مدارس پر یہ کہہ کر بلڈوزر چلوانا شروع کردیا کہ ان مدارس کو چلانے والوں کا تعلق دہشت گرد تنظیموں سے ہونے کا شک ہے۔ جب الزام ثابت ہوئے بغیر مدارس پر بلڈوزر چلوانے میں وزیراعلیٰ ہیمنتا بسوا سرما پر ہر طرف سے انگلیاں اٹھنے لگیں تو انہوں نے نیا پینترا چلا، گولپاڑہ ضلع کے داروگر الگ پکھورا چار کے لوگوں کو پولیس اور ضلع انتظامیہ نے باقاعدہ اکسا کر اور کچھ پیسے دے کر مدارس پر حملہ کراکر اسے گروا دیا۔ پھر پولیس نے بڑی معصومیت سے بیان دے دیا کہ اس مدرسے کے ہیڈ ماسٹر اور ایک ٹیچر پر دہشت گردوں سےملے ہونے کا شک تھا اس لئے علاقہ کے ناراض لوگوں نے مدرسے پر حملہ کرکے اسے توڑ ڈالا۔ اگر یہ سچ تھا تو پولیس نے مدرسہ توڑنے والوں کے خلاف کوئی قانونی کاروائی کیوں نہیں کی؟
اب اترپردیش میں سروے کے نام پر مدارس پر نشانہ سادھنے کی کوششیں شروع ہوئی ہیں۔ سروے کیا ہونا ہے ایک یہ کہ مدرسوں میں کون سا سلیبس پڑھایا جاتا ہے، مدارس میں دی جانے والی تعلیم کا معیار کیسا ہے۔ مدرسہ کون چلاتا ہے ک وئی ایک شخص یا کوئی تنظیم، مدارس کی آمدنی کا ذریعہ کیا ہے اور مدارس میں ٹائلٹ وغیرہ کا معقول انتظام ہے یا نہیں وغیرہ۔ دنیا جانتی ہے کہ مدارس میں صرف دین اسلام یعنی قرآن کی تعلیم دی جاتی ہے۔ وہی اصل سلیبس ہوتا ہے۔ قرآن پڑھانے کے ساتھ ساتھ بچوں کو نماز ، روزہ، حج، زکواۃ اور دیگر دینی اراکان  تعلیم کے ساتھ بہتر کردار کا خدا سےڈرنے والا انسان بنایا جاتا ہے۔ دارلعلوم اور دیگر بڑے مدارس میں عالم، مفتی، فاضل وغیرہ کی ڈگریاں دی جاتی ہیں۔ جہاں تک تعلیم کے معیار کا سوال ہے وہ اس لئے بہتر ہوتا ہے کہ قرآن اور دیگر اسلامی تعلیم غیر معیاری ہو ہی نہیں سکتی۔ جہاں تک ٹائلٹ وغیرہ اور صاف صفائی کا سوال ہے وہ بھی صاف ستھرے اور تمام سرکاری پرائمری سے انٹر کے اسکول کالجوں سے بہتر ہوتی ہے۔ کیونکہ قرآن پڑھنے اور نماز ادا کرنے والوںکے لئے صفائی اور پاک صاف رہنے کی بنیادی شرط ہوتی ہے۔
سرکار دراصل یہ پتہ لگانے کی کوشش میں ہے کہ مدرسہ چلانے کے لئے پیسے کہاں سے آتے ہیں اور کون دیتا ہے اس کی بھی مکمل جانکاری اضلاع میں تعینات افسران کو ہوتی ہے کہ تمام مدارس چندے سے چلتے ہیں۔ یہ چندہ پچاس سو روپئے سے دس بیس ہزار تک کا ہوتا ہے۔ مدرسہ چندہ دینے والوں کو باقاعدہ رسید دیتے ہیں۔ چندے میں صرف پیسہ ہی نہیں ملتا ، فصل پر غلّہ بھی ملتا ہے۔ اکثر تو محلّے کے لوگ مدارس کے بجلی بلوں کی بھی ادائیگی کردیتے ہیں۔ بڑی تعداد میں مدرسہ چلانے کے لئے لوگوں نے زمینیں اور دکانیں وغیرہ بھی وقف کررکھی ہیں جن کی آمدنی سے مدرسے چلتے ہیں۔ دارلعلوم اور بڑے مدراس کو دنیا کے تمام ممالک میں رہ کر کمائی کرنے والے مسلمان موٹی رقم چندے کی شکل میں بھیجتے ہیں۔ بیشتر مدارس کوئی نہ کوئی مولوی یا محلّے و الے مل کر چلاتے ہیں۔ اداروں کے ذریعہ چلائے جانے والے مدارس کی تعداد بہت کم ہے۔ سرکار دراصل چندے کی رقم، مدارس کی آمدنی اور کون مدرسہ چلاتا ہے انہی سوالات سے مدارس کو پھنسانا چاہتا ہےمدارس کے ذمہ داران کا اعتراض یہی ہے کہ بچوں کو اچھی تعلیم اور صاف ستھرے ماحول کے نام پر صرف مدارس کا ہی سروے کیوں کرایا جارہا ہے اگر سرکار کو بچوں کی اتنی ہی فکر ہے تو ذرا سرکاری اسکولوں، سنسکرت پاٹھ شالاؤں اور گروکل کا بھی سروے کرالے اگر ایمانداری سے سروے ہوجائے تو سب سے خراب حالت میں سرکاری اسکول ہی ملیں گے۔ سرکاری اسکولوں میں تعلیم کے معیار کی حالت یہ ہے کہ آدھے سے زیادہ ٹیچروں کو ٹیچر تک کی اسپیلنگ نہیں معلوم ہے۔
اترپردیش کے اقلیتی بہبود کے وزیر دھرم پال سنگھ نے بھی آخر سرکاری بدنیتی ظاہر ہی کردی انہوں نے کہا ہے کہ ان کی سرکار مدارس میں پڑھنے والے بچوں کو اصل دھار ا میں لانا چاہتی ہے اس لئے اب مدارس میں دینی تعلیم پڑھانے کے لئے صرف ایک ہی ٹیچر رہنے دیا جائے گا، باقی ہندی، ریاضی، سائنس اور انگریزی وغیرہ پڑھانے کے لئے ٹیچر رکھے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سرکار کا فوکس اس بات پر ہے کہ مدارس کے بچے بھی ڈاکٹر اور انجینئر بن سکیں۔ اب ان کم عقل وزیر سے کون پوچھے کہ اگربھارت کے آئین نے ہر کسی کو  یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنے مذہب کی تعلیم اپنے بچوں کو دینے کے لئے ادارے کھول سکتےہیں تو سرکار کون ہوتی ہے یہ بتانے والی کہ مدارس میں کیا پڑھایا جائے گا، دوسرے یہ کہ جس عمر کے بچے مدارس میں دین کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اس عمر کے بچوں کو آپ اتنے مضامین کیسے پڑھالیں گے تیسرے اگر مسلمان اپنے بچوں کو دینی تعلیم دینے کے لئے چندے سے مدرسہ چلاتے ہیں تو وہ سرکار کی مرضی سے سائنس،ریاضی، انگریزی وغیرہ کے ٹیچر کیوں رکھیں گے اور اگر رکھیں تو ان ٹیچروں کی تنخواہ کون دے گا کیا سرکار یہ سارے مضامین پڑھانے کے لئے رکھے جانے والے ٹیچروں کی تنخواہیں دےگی؟ چوتھے کیا ریاست کے پرائمری اسکولوں میں اتنے مضامین پڑھائے جارہے ہیں؟ ریاست میں چھٹی کلاس سے تو انگریزی کی اے بی سی ڈی پڑھائی جاتی ہے پھر مسلم بچوں پر یہ سارے مضامین کیسے تھوپے جاسکتے ہیں۔ فرضی بیان باز ی کرنے میں ماہر بی جے پی وزیر دھرم پال سنگھ کہہ رہے ہیں کہ مدرسے کے بچے بھی ڈاکٹر اور انجینئر بنیں سرکار یہ چاہتی ہے۔ انہیں پتہ ہی نہیں کہ بچے آٹھ دس سال کی عمر تک ہی مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں پھر عصری تعلیم والے اسکول اور کالجوں میں ہی جاتے ہیں۔ دارلعلوم اور بڑے مدارس میں عالم، مفتی، فاضل وغیرہ کی تعلیم  میں بڑی عمر کے بچے ضرور جاتے ہیں۔ دھرم پال سنگھ تو اقلیتی بہبود کے وزیر ہیں یعنی الپ سنکھیک کلیان وزیر ذرا بتائیں کہ پونے چھ سال کی یوگی سرکار نے اقلیتی بہبود کا کون سا کام کیا ہے؟ ہرسال ہزاروں مسلم بچے پرائیویٹ کالجوں سے ڈاکٹرانجینئر اور ٹیچر بن کر نکلتے ہیں اس سرکار نے ان میں سے کتنوں کو سرکاری نوکریاں دلائی ہیں؟

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر