Latest News

آر ایس ایس اور مسلم قیادت، کچھ باتیں موہن بھاگوت کی، مسلمانوں سے ملاقاتوں، مدرسوں کے سروے اور پی ایف آئی پر چھاپوں کی۔شکیل رشید

آر ایس ایس اور مسلم قیادت، کچھ باتیں موہن بھاگوت کی، مسلمانوں سے ملاقاتوں، مدرسوں کے سروے اور پی ایف آئی پر چھاپوں کی۔
شکیل رشید 
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز) 
بات ۲۰۰۲ ء کی ہے ۔ مسلم کش فسادات کے بعد میرا کئی بار گجرات جانا ہوا تھا ، اُن دنوں وہاں ، غیر منقسم جمعیتہ علما ء ہند بڑے پیمانے پر ، لُٹی پِٹی قوم کی بازآبادکاری کا کام کر رہی تھی ، اور مولانا محمود مدنی ، جوتب واقعی ایک نوجوان قائد تھے ، کالونیوں کی تعمیر کی دیکھ ریکھ کر رہے تھے ۔ ایک ملاقات میں ، آر ایس ایس کے ذکر پر کہنے لگے کہ ، مسلمانوں کو سنگھ سے مکالمہ قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔ میں نے مولانا سے یہ دریافت کیا تھا کہ کیا آپ اس سلسلے میں کوئی کوشش کر رہے ہیں ۔ جواب اثبات میں تھا ۔ لیکن ، اس مختصر گفتگو کے بعد ، آج تک مجھے پتہ نہیں چلا کہ مولانا محمود مدنی آر ایس ایس سےکوئی مکالمہ قائم کر سکے تھے ، یا نہیں ؟ ہاں اتنا پتہ ہے کہ وہ آر ایس ایس کے حلقوں میں غیر معروف قطعی نہیں ہیں ۔ اُن کے برعکس اُن کے چاچا مولانا ارشد مدنی ، جو جمعیتہ علماء ہند کے ایک دھڑے کے صدر ہیں ، نہ صرف آر ایس ایس کے قریب ہوئے بلکہ سرسنگھ چالک موہن بھاگوت سے ، سنگھ کے دفتر واقع دہلی ، جا کر ملاقات بھی کی اور یہ ’ بیان ‘ بھی جاری کیا کہ آر ایس ایس اب بدل رہا ہے ۔ مولانا ارشد مدنی کا اقدام مجھ سمیت بہتوں کو ٹھیک ٹھاک لگا تھا ، اس لیے کہ سنگھ پریوار سے گفت و شنید کے لیے ایک دروازہ کھلتا نظر آ رہا تھا اور یہ لگ رہا تھا کہ بہت سے مسائل ، جو اس ملک کے مسلمانوں کو تشویش میں مبتلا کیے ہوئے ہیں ، حل ہو سکتے ہیں ۔ لیکن اب ،دہلی کے پانچ ’ با اثر مسلمانوں ‘ اور امام فاؤنڈیشن کے ’ مکھیا ‘ مولانا عمیر الیاسی سے ، موہن بھاگوت کی ملاقات کے بعد ، لگتا ہے کہ مولانا ارشد مدنی کا اقدام شاید اس قدر ٹھیک ٹھاک نہیں جس قدر کہ تب لگ رہا تھا ۔ اب یہ لگ رہا ہے کہ آر ایس ایس کےقائدین نے ، موہن بھاگوت سمیت ، موقع موقع سے مسلمانوں سے ملاقات کوئی مکالہ قائم کرنے کے لیے نہیں کی ، اور نہ آج کر رہے ہیں ، بلکہ ان ملاقاتوں کا مقصد سنگھی مفادات کو ہی آگے بڑھانا ہے ۔ اور یہ جو مسلمان موہن بھاگوت سے مل رہے ہیں دراصل ’ استعمال ‘ ہو رہے یا ’ استعمال ‘ کیے جا رہے ہیں یا یہ خود سے چاہتے ہیں کہ آر ایس ایس انھیں ’ استعمال ‘ کرے ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ موہن بھاگوت سے ملنے والے مسلمان خود ’ مسائل ‘ پر کوئی بات نہ کرنا چاہتے ہوں ۔ میں ان ملاقاتوں کے بارے میں کوئی تبصرہ یاتجزیہ کرنا ، سوائے ایک سطر کے ، نہیں چاہوں گا ۔ اور وہ سطر یہ ہے کہ ’ مسائل ‘ جو مولانا ارشد مدنی اور موہن بھاگوت کے درمیان ملاقات کے وقت موجود تھے آج بھی برقرار ہیں ۔ یعنی حالات جوں کے توں ہیں ۔ آر ایس ایس کی قیادت کی سوچ کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ اُس نے مسلمانوں کے پالے میں گیند بار بار ڈالی ، گیند کو کبھی خوداپنے پالے میں نہیں رکھا ۔ مثال کے طور پر موہن بھاگوت نے ۶، ستمبر۲۰۲۱ء کے روز ممبئی کے ایک عالیشان ہوٹل میں چند مسلمانوں سے ، جنہیں مسلم سماج کا ’ کریم ‘ کہا جا سکتاہے ، ملاقات کر کے ، ان سے یہ استدعا کی تھی کہ ’’ سمجھ دار مسلمانوں کو ہر حال میں انتہا پسندی کی مذمت کرنی چاہیے ۔ ‘‘ پھر انھوں نے ، اپنی بار بار کی بات کو دوہرایا تھا کہ اس ملک میں رہنے والا ہر شخص ، چاہے اس کی جو بھی زبان ہو یا جو بھی مذہب ہو ، ہندو ہے ۔ اور لوگ دیکھ لیں کہ وہ اسی طرح کے بیانات دیتے چلے آ رہے ہیں ۔ ماب لنچنگ ، لو جہاد ، وندے ماترم ، تبدیلیٔ مذہب ، اندھا دھند گرفتاریاں ، این آر سی ، مدارس اسلامیہ ، مساجد ، اذن ، نماز کتنے مسائل تھے اور ہیں ان پر کبھی کچھ نہیں کہا ۔ اب سنگھ کے چیف نے یہ جو ملاقات کی ، بالخصوص دہلی کے پانچ ’ بااثر مسلمانوں ‘ سینئر صحافی و سیاست داں شاہد صدیقی ، اے ایم یو کے سابق وائس چانسلر ضمیرالدین شاہ ، سابق چیف الیکشن کمشنر انڈیا ایس وائی قریشی ، دہلی کے سابق لیفٹننٹ گورن نجیب جنگ اور ایک بڑے تاجر سعید شروانی سے ، تو باتیں کیا ہوئیں پتہ نہیں چلا ، سوائے اس کے کہ بھاگوت کو ’ گئو کشی ‘ پر اور لفظ ’ کافر ‘ پر اعتراض ہے ۔ مزید یہ پتہ چلا کہ اِن بااثر مسلمانوں نے دونوں اعتراضات کا تشفی بخش جواب دے دیا ، اور بھاگوت جی شاید مطمئن ہو گیے کیونکہ وہ خوش خوش واپس گیے ۔ اور پھر عمیر الیاسی نے انھیں ’’ راشٹر پتا ‘‘ اور ’’ راشٹر رشی ‘‘ کا خطاب دے کر اور خوش کر دیا ۔ اب عمیر الیاسی کا فتویٰ بھی آ گیا ہے کہ ’’ راشٹر پتا ‘‘ کی کسی بات کو غلط نہیں کہا جا سکتا ۔ یہی وہ بات ہے جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہ رہا ہوں ، آر ایس ایس مسلم قیادت کے منھ پر تالے لگانے کی اور قیادت کو اپنا مطیع بنانے کی کوشش کر رہا تھا ، اور اس میں موہن بھاگوت کو بہت حد تک کامیابی حاصل ہو گئی ہے ۔ انھوں نے ایک طرح سے ایک تیر سے دو شکار کیے ہیں ، ایک تو مسلم قیادت کو بے زبان کر دیا ہے ، اور دوسرے مسلم ممالک تک یہ پیغام پہنچا دیا ہے کہ بھارت میں مسلمان بہت مزے میں ہیں ، اتنے مزے میں کہ سنگھی قائدین تک مسلمانوں سے ملتے اور ان کے مسائل حل کرانے کی باتیں کرتے ہیں ۔ 
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ حال کے دنوں میں پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی کے معاملات نے مسلم ممالک میں بھارت کے خلاف غصے کی لہر دوڑا دی تھی ؟ یہ بالکل سچ ہے ، اور یہ وہ سچ ہے جس کو دھونے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ لیکن صرف یہی سچ نہیں ہے ، ایک کوشش یہ ہو رہی ہے کہ مسلمانوں کو ان کے دین سے کاٹ دیا جائے اور اس طرح سے کاٹا جائے کہ آسانی سے ان کی ’’ گھر واپسی ‘‘ کرائی جا سکے ۔ بھاگوت جی کہہ ہی چکے ہیں کہ مسمان خود کو ’ ہندو ‘ کہیں ۔ اس کے یعنی ’’ گھر واپسی ‘‘ کرانے کے لیے ’’ دین کے قلعے ‘‘ کہے جانے والے مدرسوں پر حملے شروع کرائے گیے ہیں ، ’ سروے ‘ کی شکل میں ۔ ساری مسلم قیادت ، کیا سیاسی اور کیا مذہبی ، اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ کے سامنے سرنگوں ہو گئی ہے ۔ مولانا ارشد مدنی کا مدرسوں میں عصری تعلیم اور اس کے لیے اسکولوں کے قیام کا فیصلہ اچھا ہے ، لیکن یہ گذرے ہوئے کل کو جن بنیادوں پر ’ ناقابلِ قبول ‘‘ تھا کیا وہ بنیادیں اب ختم ہو گئی ہیں ؟ کیا اب اصولِ ہشتگانہ بے معنیٰ ہو گیے ہیں ؟ کیا اکابر علما جیسے مولانا اشرف علی تھانوی ؒ ، مولانا قاسم نانوتوی ؒ وغیرہ کا تصورِ تعلیم غیر نافع تھا ؟ اور ایک سوال یہ کہ اب جب دارالعلوم دیوبند میں دسویں پاس بچوں کو داخلہ دیا جائے گا تو وہ بچے ، جو دینی مدارس سے پڑھتے ہوئے دارالعلوم میں داخلے کا خواب دیکھتے ہیں ، کہاں جائیں گے؟ مزید یہ کہ مولانا صاحب آپ اُن مدارس پر بلڈوزر چلوانے کے لیے کیوں بے چین ہیں جو چھپروں کے نیچے چلتے ہیں ، آپ کے بیان سے شہہ پاکر یوگی سرکار کے کارندے انہیں سرکاری زمین پر بتا کر ان کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں ۔ ایک صاحب بتانے لگے کہ ’’ ہماری قیادت نے سب معاملہ طئے کر لیا ہے ، یہ سروے تو بس ایک دکھاوا ہے ، کسی مدرسے کا کچھ نہیں بگڑے گا ‘‘ اگر واقعی ایسا ہے تو اچھی بات ہے ، لیکن اس پر یقین نہیں آتا ہے ۔ مساجد کا حال دیکھ لیں فجر کی اذانیں بند کروا دی گئیں ، لاؤڈ اسپیکر اتروا دیے گیے اور اب تو خود مولوی حضرات کہنے لگے ہیں کہ ’’ ایسے بھی نماز پڑھائی جا سکتی ہے ۔‘‘ یہی وہ بات ہے جو موہن بھاگوت جی پختہ کر رہے ہیں ۔ آر ایس ایس کی ایک مسلم ’ اولاد ‘ ہے ، اس کا نام ’’ مسلم راشٹریہ منچ ‘‘ ہے ،اس کے صدر اندریش کمار ہیں ، لیکن وہ مسلمانوں میں ’ بے اثر ‘ ہے ۔ سنگھ کو لگتا ہے کہ مسلمانوں پر قابو پانے کے لیے پہلے ’ اوریجنل علماء ‘ پر قابو پانا ضروری ہے ، بھاگوت جی اسی کی کوشش کر رہے ہیں ،اور بڑی حد تک کامیاب ہیں ۔ مساجد اور مدارس کے بعد اوقاف کا سروے ہے ، اس کے بعد شاید خود مسلمانوں ہی کا سروے ہو جائے ۔ ویسے سارا قصور مساجد اور مدارس کے ذمے داران کا ہی ہے ۔ کیسے کیسے گھپلے اور گھوٹالے مسجد اور مدرسہ کے نام پر کیے گیے ہیں ، زکوتیں تک ہڑپ لی گئی ہیں ! یہ تو ہونا ہی تھا ۔ ابھی وہ دن آنا ہے کہ مدرسوں کو اس طرح پابند کردیا جائے گا کہ لگے گا ہی نہیں کہ یہ کبھی دین کے قلعے تھے ۔ اور فکر نہ کریں باری ان کی بھی آنے والی ہے جو آج مودی سرکار کے خلاف زبانیں کھولتے ہیں ، شہریت قانون کے خلاف مظاہرے اور احتجاج کرتے ہیں ۔ صفورا زرگر کا حال دیکھ لیں ، شاہین باغ کی حمایت اور این آر سی کے خلاف احتجاج کا نتیجہ سامنے ہے ، انھیں جامعہ ملیہ اسلامیہ سے نکال دیا گیا ہے ، ریسرچ روک دی گئی ہے ، سوائے چند غیر مسلم ایکٹی وسٹوں کے کسی مسلم قائد کی زبان نھیں کھلی ہے ، نہ کھلے گی ۔ زیادہ دن نہیں لگیں گے جماعتوں ، تنظیموں اور اداروں کا نمبر بھی آئے گا ، پاپولر فرنٹ آف انڈیا سے شروعات کر دی گئی ہے ۔ کیا قصور ہے اس فرنٹ کا ؟ بس ایک ، یہ مسلمانوں ، اقلیتوں ، دلتوں اور پچھڑوں کے مسائل حل کرنے ، اقتدار میں ساجھیداری دلانے اور انصاف کی بات کرتی اور حکومت کی عوام مخالف پالیسیوں پر نیز آر ایس ایس پر سخت تنقید کرتی تھی ۔ این آئی اے اور ای ڈی کے چھاپے اور ۱۰۶ لوگوں کی گرفتاری کا مطلب کیا ہے ، یہی کہ زبانوں پر تالے ڈالو ورنہ ۔۔۔!!

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر