Latest News

گیان واپی معاملہ: ہندو فریق کو عدالت سے جھٹکا، وارانسی کورٹ نے کی مبینہ 'شیولنگ' کی کاربن ڈیٹنگ کی عرضی خارج، عدالت کافیصلہ خوش آئند: جمیعت علماء۔

گیان واپی معاملہ: ہندو فریق کو عدالت سے جھٹکا، وارانسی کورٹ نے  کی مبینہ 'شیولنگ' کی کاربن ڈیٹنگ کی عرضی خارج، عدالت کافیصلہ خوش آئند: جمیعت علماء۔
وارانسی: وارانسی کورٹ نے گیان واپی مسجد احاطہ میں موجود مبینہ شیولنگ کی کاربن ڈیٹنگ کرانے کا مطالبہ والی عرضی کو خارج کر دیا ہے۔ ہندو فریق کی طرف سے یہ عرضی داخل کی گئی تھی جس کی مسلم فریق نے شدید الفاظ میں مخالفت کی تھی۔ اس سلسلے میں وارانسی کورٹ نے دونوں فریق کی دلیلیں گزشتہ سماعتوں میں سن لی تھیں اور 14 اکتوبر کو فیصلہ سنانے کا اعلان کیا تھا۔آج وارانسی کورٹ کے ضلع جج اجئے کرشن وشویش نے مبینہ شیولنگ کی کاربن ڈیٹنگ کرنے والی عرضی کو خارج کرتے ہوئے ہندو فریق کو زوردار جھٹکا دیا ہے۔ عرضی کو خارج کرنے کے بعد وارانسی کورٹ نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ جہاں مبینہ شیولنگ پایا گیا ہے اسے محفوظ رکھا جائے۔ ایسے میں اگر کاربن ڈیٹنگ کے دوران مبینہ شیولنگ کو نقصان پہنچتا ہے تو یہ سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہوگی۔ ساتھ ہی وارانسی کورٹ نے یہ بھی کہا کہ مبینہ شیولنگ کو کاربن ڈیٹنگ کے دوران کسی بھی طرح کا نقصان پہنچتا ہے تو اس سے عوام کے مذہبی جذبات کو بھی ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔واضح رہے کہ اس سے قبل وارانسی کورٹ نے 'پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991' کو درکنار کر شرنگار گوری-گیان واپی کیس کو سماعت کے لائق مانا تھا۔ اس کے بعد سے اس معاملے میں سماعت چل رہی ہے۔ اس درمیان ہندو فریق کی 4 عرضی گزار خواتین نے عرضی داخل کر کاربن ڈیٹنگ کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس مطالبہ کو آج عدالت نے خارج کر دیا۔ حالانکہ شرنگار گوری میں پوجا کی اجازت کو لے کر داخل کیس پر سماعت جاری رہے گی۔

گیان واپی مسجد سول عدالت کافیصلہ خوش آئند:گلزار اعظمی۔
ممبئی: گیان واپی مسجد میں مبینہ طور پر موجود شیولنگ کی سائنسی تحقیق نہیں کی جاسکتی ہے،ہندو عرض گذاروں کی درخواست کو ورانسی کی سول کورٹ نے مسترد کریا، وارانسی سول عدالت کے سینر جج اے کے وشوشا نے چار ہندوخواتین عرض گذاروں کی درخواست کہ سائنسی تحقیق یا دیگر ذرائع سے یہ پتہ لگایا جائے کہ شیولنگ کی عمر کیا ہے اور وہ کب سے گیان واپی مسجد کے احاطہ میں موجود ہے مسترد کردی ہے، سول کورٹ کے اس فیصلہ سے ہندو عرض گذاروں کوناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ ورانسی سول عدالت کے فیصلہ پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے جمعیۃ علما ہند قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے کہا کہ عدالت کے اس فیصلے سے مسلمانوں میں پائی جانے والی بے چینی میں کسی حد تک کمی واقع ہوگی نیز اس فیصلہ سے عدالت پر ان کا اعتماد بڑھے گا۔انہوں نے کہا کہ عباد گاہوں کے تحفظ کا قانون یعنی کے پلیس آف ورشپ ایکٹ 1991اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتا کہ اس طرح کے مقدمات قائم کرکے مذہبی مقامات کوتبدیل کیا جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ ملک کی مختلف عدالتوں میں اس طرح کے مقدمات قائم کرکے دو فرقوں کے درمیان منافرت پھیلائی جارہی ہے جس کو روکنا ضروری ہے۔ پلیس آف ورشپ قانون 18 ستمبر 1991کو پاس کیا گیا تھا جس کے مطابق15،اگست 1947 کو ملک آزاد ہونے کے وقت تمام مذہبی مقامات کی جو صورتحال تھی اسے تبدیل نہیں کیاجاسکتا ہے صرف بابری مسجد تنازعہ کو اس قانون سے باہر رکھا گیا تھا کیونکہ یہ معاملہ پہلے سے ہی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت تھا اس قانون کے باوجود مسلمانوں کی مساجد، عید گاہوں اور دیگر مذہبی مقامات کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے۔گلزار اعظمی نے کہا کہ ہندو فریق کی طرف سے نچلی عدالت میں مقدمات قائم کیئے جارہے ہیں وہیں سپریم کورٹ آف انڈیا میں بھی پلیس آف ورشپ قانون کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا گیا جس میں جمعیۃ علماء سپریم کورٹ میں اہم فریق ہے اورپلیس آف ورشپ قانون 1991کی حفاظت کے لیئے کمربستہ ہے۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر