Latest News

ریاض میں روحوں کا تیوہار ’ہالووین‘ دھوم دھام سےمنایاگیا، محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد اسلامی تہذیب وثقافت اور روایات پر شب خون کا لامتناہی سلسلہ جاری۔

ریاض میں روحوں کا تیوہار ’ہالووین‘ دھوم دھام سےمنایاگیا، محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد اسلامی تہذیب وثقافت اور روایات پر شب خون کا لامتناہی سلسلہ جاری۔
 ریاض: عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق دنیا بھر میں ڈراؤنے موسم کی تقریبات کا آغاز ہوگیا ہے۔ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں بھی ’’ہالووین ویک اینڈ‘‘منایا گیا۔ اس ایونٹ کے دوران بلیوارڈ کے پنڈال کو ملبوسات پارٹی میں تبدیل کر دیا گیا۔پرنس محمد بن سلمان کے ولیعہد بننے کے بعد مقدس سرزمین سعودی عرب میں بدعات وخرافات اور فحاشی وعریانیت کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ کسی بھی طرح سے تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ مغرب زدگی سعودی معاشرے کا پیرہن بنتا جارہا ہے۔ آئے دن مغرب مرعوب ہوکر جس طرح کے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں چند سال قبل اس کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا تھا۔ اس کی مخالفت کرنے والوں کو پابند سلاسل کیاجارہا ہے سعودی جیلیں ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہیں جنہوں نے مملکت میں اسلامی تہذیب وثقافت پر پرنس محمد بن سلمان کے ذریعے مارے گئے شب خون پر احتجاج کیا ہے۔ خبر کے مطابق سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ایک ایسا دن منایا گیا جس کو ڈرا دینے والا ہفتے کا آخری روز قرار دیا گیا، اس دن کے حوالے سے تقریبات بھی منعقد کی گئی اور اہم شاہراہ کو جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب ’ہالووین‘ کے حوالے سے سجایا گیا۔خبر رساں ادارے 'عرب نیوز کے مطابق ریاض کی اہم شاہراہ پر آنے والوں کو صرف اس شرط پر داخلے کی اجازت دی گئی کہ وہ ڈراؤنے ملبوسات پہنیں گے۔سعودی دارالحکومت میں منعقد ہونے والی یہ تقریبات خوف ناک بھیس اختیار کرنے والوں کو نمائش اور شہریوں کے تخلیقی ڈیزائن سامنے لانے لیے وقف تھی۔ایونٹ میں بھرپور شرکت کی حوصلہ افزائی کے لیے بھوتوں، چڑیلوں اور ڈراؤنے ملبوسات پہن کر آنے والے مہمانوں کو بلیوارڈ میں مفت داخلہ دیا گیا۔ تقریب کو خوفناک روپ میں ڈھالنے کے لیے سعودیوں اور رہائشیوں کے تخلیقی ڈیزائنوں کی نمائش کے لیے وقف کردیا گیا تھا۔انتظامیہ کے مطابق ان تقریبات کا مقصد تفریح، سنسنی اور جوش سے بھرا ہوا ماحول تخلیق کرنا تھا جب کہ تقریب میں شرکت کرنے والوں نے مختلف کرداروں کے ملبوسات کے پیچھے چھپی کہانیاں بھی دریافت کیں۔تقریب میں شریک عبدالرحمٰن نامی شہری کا کہنا تھا کہ یہ ایک بہت اچھی تقریب ہے اور وہ اگر ایمان داری سے بتائیں تو یہ ایک خوشی کا جذبہ ہے۔
عبدالرحمٰن کا مزید کہنا تھا کہ جہاں تک اس تقریب کے حلال یا حرام ہونے کا تعلق ہے تو وہ اس بارے میں نہیں جانتے۔ وہ اسے صرف تفریح کے لیے مناتے ہیں اور کچھ نہیں اور وہ کسی بھی چیز پر یقین نہیں رکھتے۔اگرچہ خلیجی ممالک میں ’ہالووین‘ کی تقریبات پر طویل عرصے سے پابندی تھی تاہم تقریب میں شریک لوگوں نے اس موقع کر ایک بے ضررر تفریح کی شکل قرار دیا۔تقریب میں شریک خالد الحاربی کا کہنا تھا کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے اور وہ یہاں صرف تفریح کرنے آئے ہیں۔اس تقریب میں آتش بازی کا بھی مظاہرہ ہوا، تقریب میں ایسا بہت کچھ دیکھنے کو ملا جس سے خوف ٹپکتا تھا، جب کہ خوف ناک آوازوں کی گونج اس میں مزید اضافہ کر دیتی تھی۔خیال رہے کہ اس سے پہلے اسی طرح کی تقریب رواں سال ریاض کی شاہراہ پر منعقد کی گئی تھی اور اس کے علاوہ ونٹر ونڈر لینڈ کے نام سے بھی ایک تقریب کا آغاز رواں سال ۱۷ اور ۱۸مارچ کو کیا گیا تھا۔واضح رہے کہ ہالووین مغربی تہذیب کا تیوہار ہے۔ اس تہو‌ار کی بنیاد ایسے جھو‌ٹے عقیدے ہیں جن کا تعلق مُردو‌ں، بدرو‌حو‌ں او‌ر شیاطین سے ہے۔اس کی شروعات آئرلینڈ کے قبائل نے کیا۔امریکہ میں ہالووین کی شروعات ۱۹۲۱میں شمالی ریاست منیسوٹا سے ہوئی اور اس سال پہلی دفعہ شہر ی سطح پر تہوار اس کا جشن منایا گیا۔ پھر دھیرے دھیرے دو ہزار سال قدیم یہ تہوار امریکا کے دیگر قصبوں اور شہروں تک پھیل گیا اور پھر اس نے قومی سطح کے بڑے تہوار اور ایک بہت بڑی کاروباری سرگرمی کی شکل اختیار کرلی۔تاریخ نگاروں کا مانناہےکہ ہالووین کا سراغ قبل از مسیح دور میں برطانیہ کے علاقے آئرلینڈ اور شمالی فرانس میں ملتا ہے جہاں سیلٹک قبائل ہر سال ۳۱اکتوبر کو یہ تہوار مناتے تھے۔ ان کے ہا ں نئے سال کی شروعات یکم نومبر سے ہوتی تھی۔ موسمی سرگرمیوں کی وجہ سے ان علاقوں میں فصلوں کی کٹائی اکتوبر کے آخر میں ختم ہوجاتی تھی اور نومبر سے سرد اور تاریک دنوں کا آغاز ہو جاتا تھا۔ موسم سرما کو قبائل موت کے ایام سے بھی منسوب کرتے تھے کیونکہ اکثر اموات اسی موسم میں ہوتی تھیں۔سیلٹک قبائل کا عقیدہ یہ تھا کہ نئے سال کے آغازسے پہلے کی رات یعنی ۳۱اکتوبر کی شب کو زندہ انسانوں اور مردوں کی روحوں کے درمیان سرحد نرم ہوجاتی ہے اوران کی روحیں دنیا میں آکر انسانوں، مال مویشیوں اور فصلوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ روحوں کو خوش کرنے کے لیے سیلٹک قبائل ۳۱اکتوبر کی رات آگ کے بڑے بڑے الاؤ روشن کرتے تھے، اناج بانٹتے تھے اور جانورں کی قربانی دیتے تھے۔ اس موقع پر وہ جانوروں کی کھال پہنتے اور اپنے سروں پرجانوروں کے سینگ لگا کر عجیب ع غریب شکلیں بناتے تھے۔
بتادیں کہ ایسے تمام کام اور رسوم و رواج جو کسی خاص تہذیب، مذہب یا نظریے سے جنم لیتے ہوں اور ان کی پہچان سمجھے جاتے ہوں، ان کو بطور تہوار منانا اہلِ اسلام کے لیے قطعاجائز نہیں۔ کیونکہ پیغمبر اسلام صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے ’’جس نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی وہ ان ہی میں سے ہے۔‘‘(ابوداؤد)

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر