Latest News

مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی کے انتقال پر صدر عارف علوی، وزیراعظم شہباز شریف، طالبان اور اہم شخصیات کا اظہار تعزیت، کل کراچی میں تدفین۔

کراچی: عالم اسلام کے ممتاز عالم دین و مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی کا کراچی میں طویل علالت کے بعد جمعہ کی شب انتقال ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مفتی اعظم کی نماز جنازہ کل بروز اتوار ۲۰ نومبر کو ادا کی جائے گی۔ 
شیخ الاسلام جسٹس مفتی تقی عثمانی کا کہنا ہے کہ مفتی مولانا رفیع عثمانی کی نماز جنازہ ۹ بجے دارالعلوم کورنگی میں ادا کی جائے گی۔ تدفین دار العلوم کراچی کے احاطے میں واقع قبرستان میں ہوگی۔ انکی انتقال کی خبر سن کر بڑی تعداد میں علماء اور دیگر مدارس کے طلبہ دار العلوم کراچی پہنچ گئے طلبہ اس موقع پر زار و قطار روتے رہے۔

مفتی محمد رفیع عثمانی کے انتقال پر صدر مملکت عارف علوی، وزیراعظم شہباز شریف، طالبان قیادت، سابق وزیر اعظم نواز شریف، بریلوی عالم دین مولانا طاہر اشرفی، جماعت اسلامی پاکستان کے صدر سراج الحق، معروف مبلغ مولانا طارق جمیل اور جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سمیت دیگر علمائے کرام نے دکھ اور غم کا اظہار کیا۔
صدر عارف علوی نے صدر جامعہ دار العلوم کراچی مفتی رفیع عثمانی کے انتقال پر گہرے رنج اور غم کا اظہار کیا اور انہیں دینی اور علمی خدمات پر خراج عقیدت پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ مفتی رفیع عثمانی نے فقہ، حدیث اور تفسیر کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دیں، مفتی رفیع عثمانی کی دینی اور علمی خدمات، دینی علم کے فروغ میں خدمات کو یاد رکھا جائے گا۔وزیراعظم شہباز شریف نے مفتی رفیع عثمانی کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا اور تعزیتی بیان میں کہا گیا کہ وزیراعظم نے مرحوم کی بلندی درجات کے لیے دعا کی اور سوگوار خاندان سے تعزیت کا اظہار کیا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ مرحوم مفتی رفیع عثمانی کی دینی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔بریلوی عالم دین مولانا طاہر اشرفی نے مفتی رفیع عثمانی کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا ہے، انہوں نے کہا کہ پاکستان علما کونسل ان کے انتقال پر تعزیت کرتی ہے، وہ عالم اسلام کی عظیم علمی روحانی شخصیت تھے۔سابق وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے کہا کہ ’’صدر جامعہ دارالعلوم کراچی مفتی رفیع عثمانی صاحب کی وفات پر دل بہت رنجیدہ ہے۔مسلمانان عرب و عجم آج ایک عالم دین،فقیہ،محقق اور جیّد خطیب سے محروم ہو گئے۔انکی گرانقدر علمی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔اللہ تعالیٰ حضرت کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے‘‘۔مولانا طارق جمیل نے کہاکہ ’’مفتی اعظم ابن مفتی اعظم مفتی محمد رفیع عثمانی رحمہ اللہ اب ہم میں نہیں رہے ان کی شخصیت نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کا سرمایہ تھی، انکی وفات پر دل بہت غمگین ہے اللہ مفتی صاحب کے درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے‘‘۔طالبان قیادت نے پشتو میں انتقال پر اعلامیہ جاری کرکے تعزیت پیش کی۔ اعلامیہ میں کہا کہ مرحوم نے تمام عمر علم دین کی خدمت کےلیے وقف کررکھی تھی، اور نہایت احسن طریقے سے اپنی ذمہ داری سرانجام دی، انہوں نے علم دین کی بہترین خدمت کی، پسماندگان میں ہزاروں شاگرد چھوڑ گئے، امارت اسلامیہ افغانستان مرحوم کی وفات کو پاکستان سمیت تمام امت مسلمہ کےلیے ناقابل تلافی نقصان سمجھتی ہے، اللہ مرحوم کی کامل مغفرت فرمائے‘‘۔ جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے تعزیتی بیان میں کہا کہ مفتی محمد رفیع عثمانی کی وفات سے پاکستان ایک متوازن افکار ونظریات کے حامل، معتدل، بلند پایہ فقیہ اور مفتی سےمحروم ہوگیا۔انہوں نے کہا کہ ان کی گراں قدر علمی خدمات کویاد رکھا جائے گا، انہوں نے اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے پیش کی، ان کی وفات سے دل رنجیدہ ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے مفتی رفیع عثمانی کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مفتی رفیع عثمانی کا انتقال ناقابل تلافی نقصان ہے، مرحوم کی دینی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
بتادیں کہ ان کی عمر چھیاسی سال تھی اور پچھلے کچھ دنوں سے علیل تھے۔مفتی رفیع عثمانی کا تعلق تقسیم ہند کے بعد دیوبند سے پاکستان ہجرت کرنے والے مشہور علمی و دینی خانوادے سے تھا، ان کے والد مفتی شفیع عثمانی مشہور مفسر قرآن اور تقسیمِ ہند سے قبل دارالعلوم دیوبند کے ممتاز استاذ و مفتی تھے، بعد میں وہ مفتی اعظم پاکستان کی حیثیت سے بھی پوری علمی دنیا میں جانے اور مانے گئے۔ مفتی رفیع عثمانی کی ولادت ۱۹۳۶ء میں دیوبند میں ہوئی تھی، ابتدائی تعلیم دارالعلوم دیوبند میں حاصل کی، ۱۹۴۸ء میں اہل خانہ کے ساتھ پاکستان ہجرت کی اور حفظ قرآن کی تکمیل کے بعد عربی و اسلامیات کی تعلیم کے لیے۱۹۵۱ء میں دارالعلوم کراچی میں داخل ہوئے اور وہاں سے ۱۹۶۰ء میں درس نظامی کی تکمیل کی۔ وہیں سے تکمیل افتا کا کورس بھی کیا اور اسلامی فقہ میں مہارت حاصل کی، اس کے بعد دارالعلوم کراچی میں ہی درس و تدریس سے منسلک ہوئے اور تقریباً ساٹھ سال کی تدریسی زندگی میں درس نظامی کی بیشتر کتابیں پڑھائیں، ساتھ ہی وہ طویل عرصے سے اس ادارے کے سربراہ بھی تھے، اس کے علاوہ بھی پاکستان کے متعدد علمی وفقہی اداروں کی پرستی و رہنمائی کرتے رہے، درجنوں قومی و بین الاقوامی علمی و فقہی سمیناروں اور کانفرنسوں میں پاکستان کی نمایندگی کی اور ان کے قلم سے عربی و اردو زبانوں میں دو درجن سے زائد کتابیں منظر عام پر آئیں ،جن میں احکامِ زکوۃ، علامات قیامت اور نزول مسیح،یورپ کے تین معاشی نظام،اسلام میں عورت کی حکمرانی،کتابت حدیث عہدِ رسالت و عہدِ صحابہؓ میں ،نوادرالفقہ، التعلیقات النافعۃ علی فتح الملہم،حیاتِ مفتی اعظم،میرے مرشد حضرتِ عارفی وغیرہ خاص طور پر مقبول و متداول ہیں۔ ان کے فتاوی کا مجموعہ بھی فتاویٰ دارالعلوم کراچی کے نام سے طبع شدہ ہے۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر