Latest News

ماہر اقتصادیات پروفیسر نجات اللہ صدیقی کا امریکہ میں انتقال، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے بتایا اسلامی معاشیات کے میدان کے لئے بڑا نقصان

نئی دہلی: اسلامی ماہر معاشیات پروفیسر ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی امریکہ میں انتقال کرگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ماہر اسلامی اقتصادیات تھے۔اس کے علاوہ ان کا شمار جماعت اسلامی ہند کے قدآور رہنماوں میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کو اسلامی اقتصادیات پر خدمات کے اعتراف میں عالم اسلام کا سب سے بڑے ایوارڈ شاہ فیصل سے بھی نوازا گیا تھا۔انہوں نے دنیا بھر کی متعدد یونیورسٹیز میں خدمات انجام دی۔وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی ایک زمانے تک پروفیسر رہے۔ جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوری اور مرکزی مجلس نمائندگان کے بھی رکن رہے۔ان کا انتقال امریکہ میں قیام کے دوران ہوا۔وہ کافی دنوں سے علیل چل رہے تھے۔ خیال رہے کہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کو سنہ ۱۹۸میں شاہ فیصل ایوارڈ دیا گیا تھا۔ وہ اردو اور انگریزی کے ممتاز ادیب تھے۔ ان کی کتابوں کے تراجم مختلف زبانوں مثلاً عربی، فارسی، ترکی، انڈونیشیائی، ملائیشیا، تھائی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ ہو چکے ہیں۔ان کی کتاب سود کے بغیر بینکنگ، جو ۱۹۷۳اور ۲۰۰۰کے درمیان تین زبانوں میں ۲۷ ایڈیشنوں میں شائع ہوئی اور دنیا بھر میں ۲۲۰لائبریریوں کے پاس دستیاب ہے۔ یہ کتاب شاید ان کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔وہ ۱۹۳۱ میں پیدا ہوئے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ رام پور اور اعظم گڑھ میں تعلیم حاصل کی۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں معاشیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور اسلامی علوم کے پروفیسر کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے جدہ میں واقع کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی میں بھی اعزازی پروفیسر تھے۔ بعد ازاں انہوں نے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس میں سینٹر فار نیئر ایسٹرن اسٹڈیز میں فیلو کے طور پر کام کیا اور جدہ میں اسلامی ترقیاتی بینک کے اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں بطور وزٹنگ اسکالر کام کیا۔انہوں نے متعدد پی ایچ ڈی کی نگرانی کی ہے۔ اپنے طویل تعلیمی کیریئر کے دوران ہندوستان، سعودی عرب اور نائیجیریا کی یونیورسٹیوں میں مقالے لکھے۔ وہ متعدد تعلیمی جرائد کے ایڈیٹر یا مشیر رہے۔ انہوں نے متعدد کمیٹیوں میں خدمات انجام دیں اور دنیا بھر میں متعدد کانفرنسوں میں شرکت کی۔ان کے انتقال پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنے اخباری بیان میں کہا کہ ’’ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی اس دور کے بڑے اہل علم، اصحاب نظر اور ارباب فکر میں تھے، مختلف اسلامی علوم سے ان کو مناسبت تھی؛ لیکن خاص طور پر اسلامی معاشیات کو انھوں نے اپنا موضوع بنایا، اور اس میں بڑی گراں قدر خدمات انجام دیں، ان کی خدمات کی وجہ سے عالم اسلام کا اعلیٰ ترین اعزاز ’’ شاہ فیصل ایوارڈ‘‘ ان کو دیا گیا، اور یقیناََ وہ اس کے مستحق بھی تھے، ڈاکٹر صدیقی صاحبؒ سے اس حقیر کی بھی کافی مدت سے ملاقات تھی، کئی پروگراموں میں ساتھ شرکت کا موقع ملا، کئی مسائل پر مذاکرہ کی نوبت آئی، اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا سے ان کو خصوصی تعلق تھا، اکیڈمی کے کئی سیمیناروں میں انھوں نے اس حقیر کی دعوت پر شرکت فرمائی ، اپنی بات بھی پیش کی اور دوسروں کی بات بھی سنی، ان کی یہ بات مجھے بہت متأثر کرتی ہے کہ جب مقاصد شریعت پر ان کی کتاب آئی تو میں نے اس کے بعض مضامین سے اختلاف کیا اور میرا یہ مضمون حیدرآباد کے روزنامہ اخبار’’ منصف‘‘ میں دو یا تین قسطوں میں شائع ہوا، جس کا خاص نقطۂ بحث یہ تھا کہ اگر مقاصد اور نصوص میں تعارض ہو تو اس وقت مجتہد کو کیا کرنا چاہئے اور کیا اس صورت حال میں بھی مقاصد کا اعتبار ہوگا یا وہ قابل ترجیح سمجھیں جائیں گے ؟ میں نے ان کی رائے سے اختلاف کیا اور یہ اختلاف اُن تک پہنچا بھی، اس کے بعد بھی میری ان سے مختلف ملاقاتیں ہوتی رہیں؛ مگر اس اختلاف رائے نے کوئی تلخی پیدا نہیں کی، اور وہ بہت محبت کے ساتھ پیش آتے رہے جو اہل علم کی شان ہوتی ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب بھی دنیا میں اسلامی معاشیات کے فروغ کی تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں ڈاکٹر نجات اللہ ـصدیقی صاحب کا نام ایک ناقابل فراموش نام ہوگا، اللہ تعالیٰ انہیں بہترین اجر عطا فرمائے ، ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور اس میدان میں جو انھوں نے کوششیں کیں اس کو نتیجہ خیز اور ثمر آور بنائے‘‘ ۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر