Latest News

اترپردیش میں جبری تبدیلی مذہب کے۲۹۱ معاملے، ۵۰۷ گرفتار۔

لکھنو: اتر پردیش میں دوسال قبل انسداد غیرقانونی تبدیلی مذہب قانون کے نفاذ کے بعد سے یوگی آدتیہ ناتھ کی زیرقیادت بی جے پی حکومت جبری تبدیلیئ مذہب کے خلاف سخت کاروائی کررہی ہے۔ ریاستی حکومت کے ایک عہدیدار نے یہ بات بتائی۔ انہوں نے مزید کہاکہ اترپردیش میں نومبر2020کے بعد سے اب تک جبری تبدیلیئ مذہب کے291 مقدمات کے اندراج کے بعد سے زائد از507ملزمین کوگرفتارکیاگیاہے۔
میڈیا کے ذریعے دستیاب معلومات کے مطابق اس ایکٹ کے تحت درج 291 فرسٹ انفارمیشن رپورٹ(ایف آئی آر) میں سے اب تک507 ملزمین میں سے کسی کوبھی مجرم نہیں ٹھہرایاگیاہے۔ان تمام مقدمات کی سماعت متعلقہ عدالتوں میں زیرالتواء ہے۔جملہ291کیسس میں سے 59کاتعلق بالغوں کامذہب تبدیل کرانے سے ہے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق جملہ291کیسس میں 150 متاثرین نے اپنے بیانات میں عدالت کوبتایا ہے کہ ان کامذہب زبردستی تبدیل کرایاگیا۔عہدیدارنے بتایاکہ اس قانون کے تحت زیادہ تر کیس ضلع بریلی میں درج کئے گئے ہیں تاہم بریلی میں درج مقدمات کی صحیح تعدادفوری طورپردستیاب نہیں ہوسکیں۔ اترپردیش میں معذور بچوں کامذہب تبدیل کرانے کے ایک ریکٹ کا بھی پردہ فاش ہواہے۔عہدیدارنے مزیدبتایاکہ جبری تبدیلیئ مذہب کے مقدمات پہلے بھی قوانین کی دیگر دفعات کے تحت درج کئے گئے تھے لیکن27نومبر2020کواس ایکٹ کے نفاذ کے بعد سے غیرقانونی تبدیلیئ مذہب کے کیسس میں کاروائی تیزکردی گئی ہے۔جرم کی سنگینی کے لحاظ سے غیرقانونی تبدیلیئ مذہب ایکٹ کے تحت مجرم پائے جانے والے کسی بھی شخص کو دس سال کی سزائے قید سنائی جاسکتی ہے اس کے علاوہ خاطی پر15تا50ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیاجاسکتاہے۔ ایکٹ میں ایس سی /ایس ٹی برادری کے نابالغوں اورخواتین کے مذہب کی تبدیلی کیلئے تین تا دس سال سزاکی گنجائش رکھی گئی ہے۔ اس قانون کے تحت کسی بھی جوڑے کوجو بین مذہبی شادی کرنے کاارادہ رکھتاہے،اسے شادی سے دوماہ پہلے ضلع مجسٹریٹ کومطلع کرناہوگا۔ قانون کے مطابق اگرشادی کا واحد مقصد عورت کامذہب تبدیل کرناہے توایسی شادیوں کوغیرقانونی تصورکیاجائے گا۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر