Latest News

یونیفارم سول کوڈ کا خوف۔

حسام صدیقی
اداریہ
جدید مرکز، لکھنؤ
مؤرخہ ۱۱ تا ۱۷، ۲۰۲۲
۲۰۲۴؍ کالوک سبھا الیکشن جیسے جیسے قریب آتا جا رہا ہے ملک میں یونیفارم سول کوڈ کا مدعا بھی بی جےپی کی جانب سے تیزی سے اٹھایاجار ہا ہے۔اترا کھنڈ سمیت کئی ریاستوں کی بی جے پی سرکاروںنے پہلے ہی اپنی ریاست میں یونیفارم سول کوڈ لانے کا اعلان کر رکھا تھا، اس کیلئے کمیٹیاں بنا دی ہیں۔اسمبلی الیکشن کے دوران بی جے پی نے گجرات میں بھی کہا کہ اگران کی سرکار بنی تو یونیفارم سول کوڈ لایاجائے گا۔ اگر سرکاریں چاہتی ہیں تو یونیفارم سول کوڈ لائیں، اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئےلیکن جس طرح سے اعلان کئے جا رہے ہیںاس سے ایسا لگتا ہےکہ بی جے پی سرکاروں کو یونیفارم سول کوڈ سے زیادہ دلچسپی اس کے ذریعہ مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے میں ہے۔ آئین میں بھی یونیفارم سول کوڈ کی بات کہی گئی ہے۔ اسی لئے مسلمان ہویا ہندو کوئی بھی طبقہ یونیفارم سول کوڈ کی مخالفت نہیں کرےگا، بشرطیکہ وہ آئین کے مطابق ہواور کسی ایک مذہب کے رسم ورواج اس کے ذریعہ باقی مذاہب کے لوگوں پر نہ تھوپے جائیں۔
جہاں تک آئین کی بات ہے، اس میں ملک کے عوام کےلئے رائٹ ٹو ایجوکیشن، یعنی سب کیلئے تعلیم کا حق، رائٹ ٹوفوڈ یعنی سب کیلئے کھانے کا بندوبست، رائٹ ٹوہیلتھ یعنی سب کیلئے علاج کا معقول بندوبست ، سب کو روزی کمانےکا ذریعہ مہیا کرانا اور سب کیلئے سر چھپانے کی چھت فراہم کرانا بھی شامل ہے۔یونیفارم سول کوڈ بھی ساتویں یا آٹھویں نمبر پر آتا ہے۔ سرکار لوگوں کیلئے تعلیم کا معقول بندوبست نہیں کر پائی روزی روٹی کا کوئی بندوبست نہیں کیا، سب کو علاج مہیا کرانے کی کوشش نہیں ہوئی تو ملک میں مہنگے پرائیویٹ اسپتالوں اور نرسنگ ہومس کاجال بچھ گیا۔ پرائمری سے یونیورسٹی سطح تک بڑے پیمانے پر پرائویٹ سیکٹر کے تعلیمی ادارے قائم ہوگئے، سب کو دو وقت کی روٹی ملے اس کی کسی کو فکر نہیں ، کووڈ کے دوران لاک ڈاؤن کی وجہ سے حکومت نے پانچ کلو مفت غلہ دینا شروع کیا ہے لیکن وہ عارضی انتظام ہے ۔ ان تمام بنیادی ضروریات کو چھوڑ کر سیدھے یونیفارم سول کوڈ کی بات کی جانے لگی۔
 بڑی تعداد میں مسلمانوں نے یونیفارم سول کوڈ کی مخالفت شروع کر دی، انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے کیوں کہ سرکار نے ابھی تک یونیفارم سول کوڈ کا کوئی مسودہ پیش نہیں کیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب کوئی مسودہ ہی نہیں ہےکسی کو پتہ ہی نہیں ہے کہ یونیفارم سول کوڈ میں کیا ہوگا تو مخالفت کس بات کی، اس لئے مخالفت کرنے کے بجائے سرکار سے یہ مطالبہ کیاجانا چاہئےکہ پہلے وہ یونیفارم سول کوڈ کا مجوزہ مسودہ ملک کے سامنے رکھے اس پر ہر طبقے اور تمام مذاہب کے لوگوںکی رائے لی جائے۔ اسے پارلیمنٹ میں پیش کرکے بحث ہو اس کے بعد اسے قانونی شکل دی جائے چونکہ یہ بہت ہی حساس معاملہ ہے اس لئے ریاستوں کوالگ الگ طریقے سے اس پر قانون بنانے کی چھوٹ نہ دی جائے۔پارلیمنٹ کے ذریعہ قانون بنے جو پورے ملک کیلئے نافذ العمل قرار دیا جائے۔ الگ الگ ریاست اور اپنا یونیفارم سول کوڈ بنائیں گے تو اس کی مخالفت بھی ہوگی اور اس پر ٹکراؤ بھی ہو سکتا ہے۔
 شروع میں یہ کہا گیا تھا کہ ملک میں جتنے بھی مذاہب مانے جاتے ہیں ان سب کی اچھی اور سب کیلئے قابل قبول باتیں لے کر یونیفارم سول کوڈ بنایاجائے گا، تاک کسی بھی مذہب اور طبقے کے لوگوں کوایسا محسوس نہ ہو کہ ان پر کسی ایک مذہب کے رسم ورواج اور ضوابط لادے جا رہے ہیں۔ ابھی تو یونیفارم سول کوڈ کی بات کہتے وقت بی جےپی لیڈران یہ بھی دھمکی دیتے ہیں کہ اگر ہندو صرف ایک شادی کرسکتا ہے تو مسلمانوں کو چار شادیوںکی اجازت کیوں؟ ایسی ہی باتیں مسلمانوں میں یہ پیغام دیتی ہیں کہ شاید ان پر یونیفارم سول کوڈ کے بہانے ہندو کوڈ بل لادا جائے گا۔ مسلمانوں کو گھبرانا نہیں چاہئے کیوں کہ ہندو مذہب ماننے والے بڑی تعداد میں ایسے طبقے بھی ہیں جنہیں شاید یونیفارم سول کوڈ قبول نہیں ہوگا۔مثلاً بڑی آبادی آدیواسیوں کی ہےجن میں کم عمر لڑکے لڑکیوںکی شادی کا رواج ہے۔’بال ویواہ‘ کے خلاف قانون بنے ہوئے پچاسوں سال گزر گئے لیکن آدیواسیوں کو کم عمر لڑکے لڑکیوں کی شادی کرنے سے روکا نہیں جا سکا۔ ملک کی ساحلی کونکن بیلٹ کے ہندوؤں میں ’ماما اور بھانجی‘ کی شادی کا رشتہ بہت اچھا مانا جاتا ہے اور ایسے رشتے ہوتے بھی ہیں لیکن اترپردیش اور ملک کے دیگر حصوں میں ماما اور بھانجی کی شادی کی بات کوئی اگر کر دےتو اس کی پٹائی ہو جائےگی۔ یونیفارم سول کوڈ ایسے معاملات میں کیا کرے گا؟
جہاں تک مسلمانوںکا تعلق ہے تو وہ وراثت ، عبادت، شادی ، مرنے کے بعد کی رسومات جیسے چند معاملات میں اسلامی قوانین پر عمل کرتے ہیں۔ جنہیں وہ چھوڑ بھی نہیں سکتے۔ وہ سبھی بالکل ذاتی معاملات ہیں ان پر عمل کرنے سے کسی دوسرے مذہب کے لوگوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا، پھر ان پر اعتراض کرنے کا کیا جواز ہے؟ باقی تمام معاملات میں تومسلمان ملک کا قانون ہی مانتے ہیں۔ اب بڑے پیمانے پر یہ پروپیگنڈہ کیاجارہا ہے کہ مسلمان تو چار چار شادیاں کرتے ہیں اور درجنوں بچے پیدا کرتے ہیں ۔ سوال یہ کہ کیا مسلمانوں کی شادیوں اور بچوں پر کوئی سروے ہوا ہے۔ اگر نہیں تو پروپیگنڈہ کیوں؟ مرکزی حکومت کو چاہئے کہ وہ ہر ریاست کے ایک ایک ضلع کا سروے کرا لے کہ کس مذہب کے لوگوں نے کتنی شادیاں کیں ہیں اور کس طبقے میں زیادہ بچے ہو رہے ہیں۔ محض افواہ پھیلا کر ایسا قانون بنانا کسی بھی قیمت پر مناسب نہیں ہوگا۔ یونیفارم سول کوڈ کیا سکھوں کے مذہبی معاملات میں دخل دے سکے گا۔ اتنی ہمت کسی سرکار میں ہے۔ جینیوں میں دگمبر جین منی کپڑے نہیں پہنتے وہ پوری طرح برہنہ رہتے ہیں کیا کوئی قانون یا سرکار ان پر کپڑے پہننے کی پابندی لگا سکتی ہے؟

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر