Latest News

’مودی حکومت غلطیاں قبول کرے فوج کے پیچھے نہ چھپے‘، راہل کا مرکزی حکومت پر خارجہ پالیسی اور چین کے معاملے کو غلط ڈھنگ سے نمٹنے کا الزام۔

نئی دہلی: انگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے سال ۲۰۲۲ کے آخری دن صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے حزب اختلاف کے تما م رہنماؤں کو بھارت جوڑو یاترا میں شرکت کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ’سب کے لئے دروازے کھلے ہیں۔‘‘ راہل گاندھی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ صوبائی رہنماؤں کی اپنی سیاسی مجبوریاں ہو سکتی ہیں لیکن چاہے اکھیلیش جی ہوں یا مایاوتی جی سب نفرت کے خلاف ہیں اور وہ سب ہندوستان میں پیار اور محبت چاہتے ہیں۔
اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کانگریس کے پاس ایک قومی نظریہ ہے جب کہ صوبائی پارٹیوں کے پاس قومی نظریہ نہیں ہے۔ اس تعلق سے انہوں نے سماجوادی پارٹی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ سماجوادی پارٹی کا نظریہ کیرالا یا بہار میں نہیں ہے ہاں ان کا اتر پردیش کے لئے نظریہ ہو سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ کانگرس حزب اختلاف کے نظریہ کا احترام کرتی ہے۔اگر ۲۰۲۴کے لیے سب اپوزیشن ایک ہوجائے تو بی جے پی کو ہرایا جاسکتا ہے۔راہل گاندھی نے کہا وزیر اعظم کی پارٹی کا نظریہ علیحدہ ہے اور یہ ایک نظریاتی لڑائی ہے، سیاسی نہیں اور یہ بہت پرانی لڑائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب مہاتما گاندھی انگریزوں کے خلاف لڑ رہے تھے تو پوری دنیا ان کو سن رہی تھی کیونکہ وہ ایک نظریاتی لڑائی تھی۔ بی جے پی کے تعلق سے انہوں نے کہا کہ عوام میں ناراضگی ہے اور بی جے پی کو ہرانے کے لئے قومی نظریہ کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان نظریاتی لڑائی ہے اسی لئے بی جے پی کانگریس مکت ہندوستان کا نعرہ دیتی ہےچین کے مسئلہ پر انہوں نے کہا کہ شہیدوں کے خاندان کا درد وہی محسوس کر سکتا ہے جس کے یہاں کوئی شہید ہوا ہو۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ کیونکہ ان کے گھر میں ان کے والد شہید ہوئے ہیں اور ان کی دادی شہید ہوئی ہیں اس لئے وہ نہیں چاہتے کہ چین کی سرحد پر کوئی بھی جوان شہید ہو اور ان کے خاندان کو یہ درد سہنا پڑے۔ ان اس موقع پر راہل گاندھی نے کہا کہ قومی تعلیمی پالیسی غلط سمت میں جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت جوڑو یاترا کے دوران ہزاروں طلبا سے ملاقات ہوئی اور جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ بڑے ہو کر کیا بننا چاہتے ہیں تو ان کے پاس صرف پانچ متبادل تھے۔انہوں نے بتایا کہ صرف ایک لڑکی نے اپنا کاروبار شروع کرنے کی بات کہی اور ایک لڑکے نے میکینک کا کام شروع کرنے کی بات کہی، باقی سب یا تو انجینئر، ڈاکٹر، جج، آئی اے ایس اور وکیل بننا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں طلبا کو متبادل پیش کرنے ہوں گے اور تعلیم نظام کو از سر نو دیکھنا ہوگا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ اس میں وقت ضرور لگے گا لیکن ہمیں یہ تبدیلی کرنی ہوگیانہوں نے سیکورٹی معاملے کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کے پیدل یاترا بلٹ پروف گاڑی میں کی جائے۔راہل گاندھی نے 'بھارت جوڑو یاترا کو توقع سے زیادہ کامیاب بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اس یاتراکے ذریعے وہ ملک کوجوڑنے اور نفرت و تشدد کے ماحول کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور انہیں لگتا ہے اس مقصد پر وہ صحیح سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس یاترا سے انہوں نے بہت کچھ نیا سیکھا ہے۔
یاترا کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے ان پر جو تنقید کی ہے اس نے بھی انہیں سبق سکھایا ہے اور اس سے ان کی بنیادی سوچ کو تقویت ملی ہے۔مرکزی حکومت پر خارجہ پالیسی اور چین کے معاملے کو غلط ڈھنگ سے نمٹنے کا الزام لگاتے ہوئے کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے حکومت سے کہا کہ وہ اپنی غلطیوں کو قبول کرے اور فوج کے پیچھے نہ چھپے ۔ انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ چین ’’ کہیں کچھ کرنے کی تیاری کر رہا ہے ، اور یہ ’ اگر‘ نہیں بلکہ ’ کب ‘ کا سوال ہے ‘‘، حکومت پر تیاریوں اور احتیاطی تدابیر کے لیے زور دیا ۔ اپنی دادی اور والد کے قتل کا ذکر کرتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا کہ وہ شہیدوں کے خاندان سے آئے ہیں اور وہ شہداء کے خاندانوں کے درد اور احساسات کو سمجھتے ہیں ، لیکن ’’ بی جے پی کی اعلیٰ قیادت میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو اسے سمجھے ۔ یہ نہ اچھا ہے نہ برا ، لیکن حقیقت یہی ہے ۔ ان ہوں نے مزید کہا کہ جب فوج کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو ہمارے فوجیوں اور ان کے خاندانوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے ۔ میں صاف صاف کہہ دوں کہ میں ایسا نہیں کرنا چاہتا ، میں اپنے فوجیوں کو درپیش مشکلات جانتا ہوں ، میں ان سے پیار کرتا ہوں ۔‘‘ راہل گاندھی نے مزید کہا کہ حکومت حکمت عملی سے کام نہیں کر رہی ہے۔ بی جے پی کے ذریعے نکتہ چینی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ جب میں حکومت کی بات کرتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ میں فوج کی بات کر رہا ہوں ۔ نہیں ، میں فوج کی بات نہیں کر رہا، میں حکومت کی بات کر رہا ہوں ، حکومت اور فوج میں فرق ہے ۔ حکومت نے غلط فیصلے کیے ہیں اس لیے حکومت کو آرمی، نیوی اور ایئر فورس کے پیچھے نہیں چھپنا چاہیے ۔ یہ بزدلی ہے ۔ حکومت کو خود کہنا چاہیے چاہیے کہ ہم نے یہ کیا ، یہ ایک غلطی تھی اور ہم اسے درست کریں گے ۔ ہم ان کی مدد کریں گے ۔ صرف ہم ہی نہیں پوری اپوزیشن حکومت کی مدد کرے گی۔ لیکن ہمیں بتائیں کہ کیا ہوا ۔‘‘

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر