09319019005
رواں ہفتے آر ایس ایس چیف 'موہن بھاگوت' کا "پانچ جنیہ" کو دیا گیا عدم مساوات پر مبنی انٹرویو اور وشو ہندو پریشد کے سابق صدر 'پروین توگڑیا' کے حوالے سے دو الگ الگ خبریں پڑھنے کو ملیں، اس سے قبل 'سادھوی پرگیہ' کا اپنی برادری کے لوگوں کو ہر گھر میں سبزی کاٹنے کے بہانے چاقو تیز رکھنے کا مشورہ دینا اور اب سری رام سینا کے کارکن 'پرمود متھالک' کا ہندؤں کو اپنے گھروں میں تلواریں لٹکانے کا بیان بھی شہ سرخیوں میں ہے۔ اس سلسلے میں ہمارا اپنا خیال یہ ہے کہ یہ سب سوچی سمجھی سازش، دیرپا اثر نظم و ضبط برقرار رکھنے اور مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ کھیل کھیلا جارہا ہے؛ بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ لیڈران و کارکنان سے قصدا ایسے بیانات دلائے جا رہے ہیں جس سے کہ ہائی کمان کو اندازہ لگانا آسان ہو جائے کہ ملک میں آباد اقلیتیں بالخصوص مسلم اقلیت بیدار ہے یا خوابیدہ؟ اور پھر جہاں ان کو عمل پر ردعمل ہونے اور نہ ہونے کا اندازہ ہو وہیں اپنی صلاحیتوں اور سازشوں کو کارآمد و مفید بنانے کی کوششیں تیز کی جائیں۔
چنانچہ آر ایس ایس چیف کا یہ کہنا کہ:
"ہم خود (ہندو مذہب) کو مثال بنائیں گے، اور ہم لوگوں کے پاس جاکر ان (دیگر اہل مذاہب) سے بات کریں گے؛ جس کو اچھا بننا ہے وہ ہماری پیروی کرےگا اور ہمارے ساتھ رہےگا، اور جس کو اچھا نہ لگے، وہ ہمارے ساتھ نہیں رہےگا اور ہم اس کا کچھ نہیں کریں گے؛ لیکن وہ بھی (مطلب: مسلمان یا عیسائی) ہمارا کچھ نہ کر سکے، اس کی تو فکر بہر حال ہمیں کرنی ہی ہوگی"۔ ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو سب سے بہتر کہنا اور مذہب اسلام کو تمام مذاہب پر فوقیت حاصل ہے؛ کہنا چھوڑ دینا چاہئے۔
اسی طرح وشو ہندو پریشد سے نکالے گئے 'پروین توگڑیا' جو ہمیشہ اپنے بھڑکاؤ بیانات، اشتعال انگیزی اور انتہا و شدت پسندی سے جانے جاتے ہیں؛ ریاست اتراکھنڈ میں ایک عوامی اجتماع سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا کہ:
"دو کروڑ نوجوانوں کو ترشول دینے اور ہندوستان کا نیا آئین مرتب کرنے اور اس میں ہندؤں کے مفادات کو پیش نظر رکھا جائےگا"۔
اگر ان دونوں لیڈران کی یہ گفتگو کوئی عام آدمی بھی سن لے تو وہ بآسانی اس نتیجہ پر پہنچ جائےگا کہ ایسی گفتگو کا مقصد ملک کے مستقبل کو تاریک، یہاں کی قومی سلامتی کو منتشر اور یہاں پائی جانے والی کثرت میں وحدت کی نمایاں خصوصیت کو پارہ پارہ کرنے اور باہمی اخوت و مساوات کو نقصان پہنچانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ اس قسم کی نازیبا، ناشائستہ اور غیر ذمہ دارانہ گفتگو ان لیڈران کی طرف سے پہلی بار کی گئی ہے، جسے امر اتفاقی کہہ کر نظر انداز کر دیا جائے اور اسے بحث کا موضوع نہ بنایا جائے؛ بلکہ یہ سلسلہ چلتے ہوئے تقریبا آٹھ سال ہو گئے اور جیسے جیسے حالات پر ان کی گرفت مضبوط ہوتی جا رہی ہے ویسے ویسے ان کے قول اور عمل میں پختگی اور صداقت کا عنصر حاوی و نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ ملک کے جو اہم اور بڑے ادارے ہیں، وہاں بیٹھے لوگ ان کی پکڑ ہونے کے باعث و سبب ان کے اشاروں پر کام کر رہے ہیں۔ ایک عدلیہ ہی کی مثال لے لیجئے؛ جس کی خصوصیت افراد و طبقات کی شناخت کئے بغیر فیصلے صادر کرنا اور بلاتفریق مذہب و ملت قانون نافذ کرنا ہوتا ہے؛ لیکن عوام کی بڑی تعداد وہاں سے جاری ہونے والے حالیہ فیصلوں سے متحیر اور عجیب کش مکش میں ہے، کیوں کہ عوام کو واضح طور پر طرفداری اور جانبداری کا احساس ہو رہا ہے۔ معاملہ "ہیٹ اسپیچ" سے وابستہ ہو یا مذہبی رسم و رواج کی ادائیگی کا؛ اگر اس میں ماخوذ شخص کا تعلق اقلیت یا دلت طبقہ سے ہوتا ہے تو اسے قانون کے حصار میں لےکر بہت جلد ملزم سے مجرم ٹھہرا دیا جاتا ہے، وہیں اگر اس کا تعلق اکثریتی طبقے سے ہوتا ہے تو اس کے بچاؤ اور اسے بےگناہ ثابت کرنے کےلیے فرقہ پرستوں کی پوری ٹیم یکجا ہو جاتی ہے اور جلد از جلد اسے رہائی کا پروانہ دلوا کر اسے گھومنے پھرنے کی مکمل آزادی اور سرعام اسے آنے جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے؛ اب وہ جو چاہے کرے اور جہاں چاہے آئے جائے۔ انصاف کے اس دوہرے پیمانے اور ظلم و زیادتی کی اس دلخراش داستان کے پیچھے حکمرانوں کی مرضی اور عہدے داروں کی سرپرستی کو اگر شامل نہ سمجھا جائے تو پھر اور کیا سمجھا جائے؟ اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اعلی سطح کے لیڈران اور حکام کی مرضی و سرپرستی یہاں شامل نہیں ہوتی تو بھی ان کا یہ وصف اور مزاج ملکی حالات کو بد سے بدتر کرنے کے واسطے کافی ہے کہ اقتدار اعلی پر فائز شخصیات نے آج خود کو اس ملک کے سیاہ و سفید کا مالک تصور کر رکھا ہے، ان کے ساتھ وہ تمام لوگ جو ان کے ماتحت کام کرنے والے ہیں؛ وہ سب ان کے اشاروں پر فتنہ انگریزی اور شدت پسندی پر محمول سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں؛ کیونکہ انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ جس تخت و تاج کے مالک آج ہم ہیں، اور جو اقتدار ہمارے قبضہ میں ہے، وہ ہمیشہ ہمارے پاس رہےگا اور ہمیشہ ہمیش کےلیے ہم اس کے مالک بن گئے ہیں؛ اس لیے ہماری مرضی کہ ہم جس راہ پر اس ملک کو لے جائیں اور یہاں آباد عوام کو جس بات کا ہم پابند کریں، عوام اس کو کرنے والے ہوں۔ اسے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں، اسے کیا کھانا ہے اور کیا نہیں، کیسے اسے اپنے مذہبی امور انجام دینے ہیں؛ یہ سب اب ہم طے کریں گے اور جیسا ہم چاہیں گے ویسا ہونا ہی ہے۔
اس سلسلے میں ہم بات واضح کر چلیں کہ اول تو کسی کا اس طرح سوچنا ہی غلط ہے؛ اس لیے کہ تخت و تاج پر نہ پہلے کسی کی اجارہ داری رہی ہے اور نہ آئندہ یہ کسی کے گھر دہلیز کی باندی اور لونڈی بن کر رہ سکتی ہے؛ بلکہ طاقت و حکمرانی ایک وقتی اور آزمائشی شے ہوا کرتی ہے، جو حالات و افراد کے بدلنے پر ایک جماعت سے دوسری جماعت کی طرف منتقل اور ایک خاندان سے دوسرے خاندان کے ہاتھوں میں پہنچ جاتی ہے۔ چنانچہ کسی بھی حکمراں طبقے اور سیاسی جماعت کا یہ خیال پالے رکھنا کہ سیاہ و سفید کے مالک اب ہم ہیں اور یہاں کے عوام ہماری دست نگر اور ہماری سوچ و فکر کی محتاج اور ہمارے وضع کردہ اصول و قوانین کی پابند ہوگی؛ یہ اس طبقے اور جماعت کا وہم و گمان تو ہوسکتا ہے، جو اسے اندھیرے میں رکھے ہوئے ہو؛ مگر حقیقت سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہوسکتا۔ اس لیے سیاسی جماعتوں اور اقتدار پر فائز شخصیات کو ہمیشہ اسی اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے ملک کی رعایا کے مزاج و مذاق کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کے روشن مستقبل کی فکر اور ملک کی سلامتی پر مبنی اسکیموں پر توجہ مرتکز کرنی چاہیے اور جو شدت پسند عناصر اور تخریب پسند لابی ملک و سماج کے بگاڑ و فساد پر آمادہ ہوں، انہیں قابل عبرت سزا دے کر ملک کی سرزمین کو ان کے وجود سے پاک کرنی چاہیے۔
شدت پسندی اور امن و سلامتی دو متضاد نظریات ہیں، ایک کے ہوتے ہوئے دوسرے کا وجود نہیں ہو سکتا، اس لیے پہلے نظریے کے حامل افراد جن کی چپیٹ اور نازیبا حرکات سے اس وقت ہمارے ملک کا مستقبل لرزہ ہے؛ ان کو ٹھکانے لگانے کے بعد ہی دوسرے نظریہ کو فروغ اور استحکام حاصل ہوسکتا ہے، اس کے بغیر ہماری ہر کوشش اور حکومت کی ہر پہل ناقص و نامکمل ثابت ہوگی اور معاشرے میں اس وقت تک حقیقی امن و امان قائم نہیں سکتا جب تک ہر قسم کی تخریب و تقسیم کے خول سے ہم خود کو نہیں نکالیں گے۔
(mdqasimtandvi@gmail.com)
0 Comments