Latest News

حکیم الاسلام ؒقاری محمد طیب صاحب کے خاص معروف عالم دین مفتی محمد الیاس قاسمی کی وفات.

دیوبند: سمیر چودھری۔ معروف عالم دین اور حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب ؒ کے خاص مفتی محمد الیاس قاسمی کا ان کے آبائی وطن میں انتقال ہوگیا۔ جیسے ہی ان کے انتقال کی اطلاع دیوبند پہنچی تو متعلقین میں غم کی لہر دوڑگئی۔ 

ان کے انتقال پر دارالعلوم دیوبند کے سابق شیخ القراء قاری ابوالحسن اعظمی نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ مفتی محمد الیاس فی نفسہٖ بڑے نیک طبع انسان تھے، پھر یہ کہ سفر وحضرت کی ایک طویل صحبت حضرت حکیم الاسلام ؒ کے ساتھ آپ کے اندر مقناطیسیت اور دلکشی کی خاص کیفیت پیدا ہوگئی تھی ، مرحوم ایک ملنسار انسان تھے۔ قاری ابوالحسن اعظمی نے کہا کہ حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ کے مشرقی یوپی کے اکثر اسفار میں ایک ہلکے پھلکے ، دبلے پتلے رفیق سفر دیکھے جاتے تھے ، مدرسہ قرآنیہ جونپور کے ایک بڑے جلسہ میں ایک مرتبہ حکیم الاسلام تشریف لائے تھے ، میں اس مدرسہ میں تجوید کا مدرس تھا ، میری تلاوت سے جلسہ کا آغاز ہوا اور حضرت حکیم الاسلام کی تقریر کے دوران ہی یہ رفیق سفر اپنی جگہ سے اٹھ کر میرے قریب آئے اور تعارف کے چند کلمات کے بعد انہوں نے مجھ سے بات کی ، پہلے میری تلاوت سے متعلق کچھ کلمات کہے گئے ۔ پھر آخر میں یہ کہا کہ آپ سے ملتے رہنے کا جی چاہتا ہے ، ظاہر ہے کہ میں جونپور میں اور آپ دیوبند میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مرحوم نے اسی ساعت میں مذکورہ کلمات کہے۔ چند ہی سال میں تکمیل تعلیم میں، میں دیوبند پہنچ گیا اور عجیب بات ہے کہ ابتدا ہی سے مولانا کا ساتھ ہوگیا۔ مسجد قدیم میں امامت کی وجہ سے میری اقامت بھی احاطہ مسجد میں ہی ہوگئی اور مولانا بھی گویا مسجد میں ہی رہتے تھے۔ اسی احاطہ میں گونڈہ کے رہنے والے مولانا نعمت اللہ بھی رہتے تھے ۔ قاری ابوالحسن اعظمی نے کہا کہ دیوبند میں اس وقت متعدد مجالس بعد نماز عصر ہوتی تھی، یہ دیوبند کی ایسی خصوصیت تھی جس کی کوئی مثال نہیں تھی۔ اس وقت میں مولانا علامہ ابراہیم بلیاویؒ کی نہایت عالمانہ مجلس جس میں بہت ہی خاص درجہ علیا کے اساتذہ شریک ہوتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا الیاس کا حضرت حکیم الاسلام سے بڑا طویل تعلق رہا ہے ، حضرت کے حیات تک آپ حضرت سے واصل رہے۔ مولانا محمد الیاس جہاں بھی رہے دین ودیانت ، علم شریعت کے حصار میں رہے، دین وعلم کی فکر میں غلطاں رہے۔ میرا اور آپ کا تعلق بہت دیرینہ اور بہت عمدہ اور مضبوط رہا۔ آپ کے بھائی کا میں استاذ بھی ہوں، اس طرح سے بھی مرحوم سے تعلق رہا ہے ۔ مرحوم کے واصل بحق ہوجانے کی خبر سے دل ودماغ کو ایک جھٹکا لگا، مگر آخری حالات معلوم ہوکر اطمینان بھی ہوا۔ انہوں نے کہا کہ مرحوم کے جانے سے ایک دیرینہ رفیق کا فراق جھیلنا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے۔

یوپی رابطہ کمیٹی کے سیکریٹری مولانا ڈاکٹر عبید اقبال عاصم (علی گڑھ) نے کہا کہ مفتی محمد الیاس گونڈوی صاحب کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد اس قادر مطلق کی بارگاہ میں حاضر ہوگۓ جو ہر ذی نفس کا مقدر ہے ۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ گذشتہ کل عزیز دوست مولانا محمد اسلم نظامی صاحب (حال مقیم ابو ظہبی) نے واٹس ایپ پر انکی بیماری کی اطلاع دی تھی اور آج موصوف سے ہی مفتی صاحب کے انتقال کی افسوس ناک خبر موصول ہوئ۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جملہ پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین۔ مفتی صاحب مرحوم ھم سے کئ سال پہلے دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہو گۓ تھے حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے سلسلہ ء بیعت وارادت میں منسلک تھے۔ قضیہ ء دارالعلوم دیوبند کے موقع پر حکیم الاسلام مرحوم کے جاں نثاروں میں شمار ہوتے تھے۔ علمی ذوق کے حامل تھے۔ معاش کے لئے انہوں نے دیوبند کا انتخاب کیا تھا اسی غرض سے مرحوم نے قاضی مسجد کی دوکانوں میں سے ایک دوکان میں ایک کتب خانہ "ادارہ علم و حکمت" کی بنیاد ڈالی تھی جو اس وقت میں اعلیٰ معیار کا کتب خانہ شمار ہوتا تھا۔ یہ کتب خانہ علمی سرگرمیوں کا مرکز تھا جس میں دیوبند کے "اصحاب دانش" و"باذوق حضرات" جمع ہوتے یہ ادارہ تجارتی مرکز سے زیادہ علمی بحث ومباحثہ کا بہترین مرکز تھا جس میں خوب دلچسپ نشستوں کا سلسلہ قائم تھا۔ راقم بھی کبھی کبھار اصحاب علم وفضل کی گفتگو سے محظوظ ہوتا۔ مفتی صاحب مرحوم کے ادارہ میں سنجیدہ علمی گفتگو بھی ہوتی اور وہاں کے یومیہ حاضر باش بے تکلفی کے ساتھ نجی مسائل پر بھی ایک دوسرے کے شریک کار رہتے تھے۔ تقریباً پندرہ بیس سال پہلے مرحوم کاروباری نقصان کے باعث پہلے بمبئی اور پھر آبائ وطن واپس پہنچ گئے۔ مرحوم کی وطن واپسی کے بعد یہ علمی شخصیت عوام و خواص کی نظروں سے اوجھل ہو گئ۔ اور علمی مجالس کا وہ سلسلہ منقطع ہو گیا جومرحوم نے اپنے علمی مزاج کی وجہ سے دیوبند میں قائم کیا تھا۔ عرصۂ دراز کے بعد کئ سال قبل مفتی صاحب کے تعلق سے ایک "متنازع موضوع" پر ان کی رائے بحث ومباحثہ کا موضوع بن گئ جس نے ان کے خیر خواہوں میں بے چینی پیدا کردی اسی وجہ سے وہ ملت اسلامیہ ہندیہ کی زبردست تنقید کا نشانہ بنے اسکے بعد مفتی صاحب مرحوم نے گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ 
بہرحال مفتی صاحب مرحوم کا انتقال ہر اس شخص کے لئے بہت زیادہ رنج وغم کا سبب ھے جس نے انہیں قریب سے دیکھا ھے 'انکے خیالات سے واقفیت حاصل کی ھے' انکی مجالس میں شرکت کی ھے.  اللہ رب العزت سے دعاء ہیکہ وہ اپنے اس مخلص بندے کی حسنات کو قبولیت سے نوازے اور دانستہ ونادانستہ خطاؤں وسیآت کو معاف اور انہیں حسنات سے تبدیل فرما کر اجر عظیم اور جزاۓجزیل عطا فرمائے آمین یارب العالمین۔ 

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر