Latest News

مولانا سید اطہرحسین دہلویؒ کا انتقال ملک و ملت کیلئے عظیم خسارہ۔

شاہنواز بدر قاسمی۔
۲۶جنوری ۲۰۲۳ کی شب جب ہم لوگ جشنِ یومِ جمہوریہ تقریب کی تیاری میں لگے ہوئے تھے سوشل میڈیا کے ذریعے ایک ایسی اندوہناک خبر ملی جس نے صدمے میں ڈال دیا، دیوبند سے مفتی انوارخان صاحب نے مولانا سید اطہر حسین دہلوی صاحب کے انتقال کی خبر دی تو ہم نے کہانہیں ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے ہم نے بطور تصدیق روزنامہ انقلاب کے ایڈیٹر محترم ودود ساجد صاحب کو اسی وقت فون کیا تو انہوں نے اس خبر کی تصدیق کی اورکہا کہ یہ اطلاع درست ہے مولانا دہلوی نہیں رہے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون 
مولانا اطہرحسین دہلوی ہندوستانی مسلمانوں کیلئے ایک جانا پہچانا نام اور نمایاں چہرہ تھے جو اپنی بیباکی کیلئے مشہور تھے، کم عمری کے باوجود انہوں نے اپنی محنت، صلاحیت اور تعلقات کے ذریعے ملکی سطح پر اپناایک ایسا حلقہ بنایا جو مسلکی تعصب پرستی سے پاک تھا ان کے تعلقات ہر مسلک کے بڑے علماء، بزرگ، دانشوران اور اہل علم حضرات سے تھا، وہ اپنی بات کو بہت خوبصورتی اور سلیقہ مندی سے کہنا جانتے تھے، مولانا مرحوم دہلوی تہذیب کے امین اور موجودہ ترجمان تھے، مذہبی عالم دین ہونے کے باوجود بھی سیاست سے گہرا تعلق تھا لیکن مولانا نے کبھی کسی پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کی بلکہ کہتے تھے ہمارے تعلقات ان سیاست دانوں سے صرف اس لئے ہیں تاکہ ہم کسی بے سہارا کے کام آسکیں۔ مولانا ملک کے بڑے بڑے نیوز چینل پر اور اہم اخبارات میں نمایاں طور پر نظر آتے تہے، وہ صرف مسلمانوں کی بات نہیں کرتے بلکہ دستور ہند کی روشنی میں ہر مظلوم کی دمدار ترجمانی کرتے تہے، سوشل میڈیا پر ان کے ویڈیوز کو دیکھ کر ان کی بیباکی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے_

مولانا دہلوی کے ساتھ چند سال قبل مفتی منظور ضیائی صاحب کی دعوت پر ایک اہم کانفرنس میں بنگلور جانے کا اتفاق ہوا، اتفاق سے وہ میرے برابر والے کمرے میں ٹھہرے ہوئے تھے، تین دن قیام کے دوران انہیں قریب سے دیکھنے کاموقع ملا، وہ انتہائی نیک دل اور خوش مزاج شخصیت کے مالک تھے، بے تکلفی سے گفتگو کرتے، کانفرنس مکمل ہونے کے بعد مجھے کہنے لگے کیا ارادہ ہے فلائٹ تو رات کی ہے چلو حضرت ٹیپو سلطان شہید رحمتہ اللہ علیہ کی قبر پر فاتحہ پڑھ کر آتے ہیں، اس یادگار اور تاریخی سفر کے بعد مولانا دہلوی سے ایک خاص لگاؤ ہوگیا اور اکثر کسی نہ کسی مسئلہ پر ان سے ضرور گفتگو ہوتی رہتی تھی، وہ کبھی کبھی اپنی ناراضگی کااظہار بھی کرتے تھے اور کہتے تھے لوگ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کیوں نہیں کہتے ہیں۔
دہلوی صاحب ہمارے ایک واٹس ایپ گروپ تازہ ترین کے سرگرم ممبران میں شمار کئے جاتے تہے، اہم مسائل پر معزز ممبران کی موجودگی میں بیباکی سے اپنی رائے رکھتے تھے، مجہے کہتے تھے آپ نے دوبارہ اُردو لکھنا سکھا دیا، واٹس ایپ گروپ کی وجہ سے کسی نہ کسی بہانے سے ان سے مستقل رابطہ رہتا تہا، جب ہم نے اپنے آبائی وطن سہرسہ میں وژن انٹرنیشنل اسکول قائم کیا تو بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسکول آنے کی خواہش ظاہر کی ہم نے وعدہ بہی کیا لیکن کوویڈ کی وجہ سے ممکن نہیں ہوسکا، امسال اسکول کے سالانہ تقریب میں انہیں بلانا چاہتے تہے لیکن  ہمارے یہاں آنے سے قبل اس دارفانی سے رخصت ہوگئے-

مولانا سید اطہر حسین دہلوی سیاسی مزاج رکھنے کے باوجود بھی ایک باوقار شخصیت کے مالک تھے، دینی، ملی اور مذہبی موضوعات پر ان کی گفتگو کو ہر حلقے میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھاجاتا تھا، انجمن منہاج رسول کے نام سے انہوں نے ایک تنظیم بھی بنائی تھی جو کئی ریاستوں میں سرگرم عمل تھی، کسی نہ کسی موقع سے ان کی سرگرمیوں کا احساس ہوتا رہتا تھا، مولانا دہلوی ایک بہترین خطیب تھے جن کی تقریریں سننے کے بعد مزید سننے کا من کرتا تھا۔انہوں نے اپنی شخصیت کو مجروح ہونے ہمیشہ بچانے کا کام کیا، متنازعہ موضوعات پر خاموش رہتے۔دارالعلوم دیوبند نے جب مسلمانوں کے مذہبی رہنماؤں سے ٹی وی ڈیبیٹ میں نہ جانے کی اپیل کی تو انہوں نے مجھے فون کرکے کئی ایسے نام بتائے اور کہاکہ آپ ان لوگوں سے بہی ضرور بات کیجئے وہ دارالعلوم دیوبند کی اپیل کااحترام کریں۔
مولانادہلوی کی اچانک رحلت سے ملت کے بڑے بڑے علماء اور مفکرین غم زدہ ہیں، وہ خاموش طریقے پر لوگوں کی رہنمائی کرنے کا مزاج رکھتے تھے، کئی بڑے سیاسی و ملی رہنماؤں کے معتمد تہے، آپ کے مفید مشوروں سے بڑا فائدہ ہوتا تہا، آپ کے اچانک جانے سے یقینی طور پر اہل خانہ، متعلقین اور چاہنے والوں میں افسردگی ہے اللہ پاک مولانا دہلوی صاحب کے درجات کو بلند فرمائے اور اہل خانہ کو صبرجمیل عطاء فرمائے۔آمین

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر