Latest News

ہلدوانی کی غفور بستی میں نہیں چلے گا بلڈوزر، سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کے فیصلے پر لگائی روک، ریلوے اور ریاستی حکومت کو نوٹس جاری، ’کہا پچاس ہزار لوگوں کو راتوں رات اجاڑ نہیں سکتے‘، اگلی سماعت ۷؍ فروری کو۔

نئی دہلی۔ ۵؍جنوری: ہلدوانی میں ۲۹ ایکڑ زمین پر بسی غفور بستی میں تجاوزات معاملے میں سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ آیا ہے، عدالت عظمیٰ نے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر روک لگادی ہے جس میں تجاوزات ہٹانے کا حکم دیاگیا تھا، ساتھ ہی اتراکھنڈ حکومت اور ریلوے کو نوٹس جاری کیا ہے، معاملے کی اگلی سماعت ۷ فروری کو ہوگی۔ یہ سماعت جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس ابھے ایس۔ اوک کی بینچ نے کی۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے بستی میں رہنے والے تقریباً پچاس ہزار مسلمانوں کو راحت ملی ہے، سپریم کورٹ کی سماعت کے دوران غفور بستی میں دعائیں کی جارہی تھیں، سڑکوں پر سینکڑوں کی تعداد میں خواتین اپنے حق میں فیصلہ آنے کی دعائیں کررہی تھیں، فی الحال ان کی دعائیں قبول ہوگئی ہیں۔ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران عرضی گزاروں کے وکیل پرشانت بھوشن نے کہاکہ غفور بستی میں تجاوزات ہٹانے سے تقریباً پچاس ہزار خاندان متاثر ہوں گے، انہو ں نے کہاکہ عوامی احاطے ایکٹ کے تحت یہ کارروائی درست نہیں ہے، دوسری جانب اتراکھنڈ حکومت کا کہنا ہے کہ غفور بستی ریلوے کی زمین پر قائم ہے، یہاں رہنے والے لوگوں نے ریلوے کی زمین پر قبضہ کیا ہے۔ سماعت کے دوران جسٹس کول نے کہاکہ اس معاملے کو انسانیت کے نظریے سے دیکھنا چاہئے، ہم سات دن کے اندر تجاوزات ہٹانے کا حکم کیسے دے سکتے ہیں، لوگوں کے گھروں کو منہدم کرنے سے پہلے انہیں آباد کرنے کا کام کرایاجاناچاہئے، کچھ لوگوں کے پاس ۱۹۴۷ کے وقت کی زمین پٹی ہے، سپریم کورٹ نے پوچھا کہ غفور بستی کی کتنی زمین ریاستی حکومت کی ہے اور کتنی ریلوے کی؟ عرضی گزاروں نے کہاکہ لوگوں کے پاس زمین آزادی سے پہلے کی ہے، ان کے پاس حکومتی لیز بھی ہے، حکومت کہہ رہی ہے کہ وہ زمین اس کی ہے، ریلوے کہہ رہا ہے کہ زمین ہماری ہے۔ ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایشوریہ بھٹ نے کہاکہ عرضی گزاروں کا زمین پر دعویٰ ان کا اپنا ہے، ایسا کہاجاتا ہے، لیکن یہ زمین ریلوے کی ہے، وہاں رہ رہے لوگوں نے کسی طرح کی بحالی کی کوشش نہیں طلب کی ہے، یہ زمین ریلوے کے ڈیولپمنٹ اور سہولیات کےلیے ضروری ہے، یہ ریاستی حکومت کے وکاس کےلیے بھی ضروری ہے، کیوں کہ یہ اتراکھنڈ کا دروازہ ہے۔ بینچ نے کہاکہ یقینی طور پر زمین ریلوے کی ہے تو اسے ڈیولپ کرنے کا حق ہے لیکن اگر اتنے لوگ اتنے عرصے سے وہاں رہ رہے ہیں تو ان کی بحالی ضروری ہے۔لوگ دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ ۱۹۴۷ کے بعد یہاں آئے تھے، یہ پراپرٹی نیلامی میں رکھی گئی تھی، ڈیولپمنٹ کیجائے اور بحالی کی منظوری دی جانی چاہئے، آپ ۷ دن میں زمین خالی کرنے کےلیے کیسے کہہ سکتے ہیں، ان لوگوں کی کسی کو تو سننی پڑے گی، ہوسکتا ہے کہ دعویٰ کررہے سبھی لوگ ایک جیسے نہ ہوں، کچھ الگ کیٹگری کے ہوں لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے لیے انسانی پہلو کے تحت غوروفکر کی ضرورت ہے۔ ابھی ہم ہائی کورٹ کے حکم پر روک لگاتے ہیں، یہاں کوئی تعمیری یا وکاس کا کام نہیں ہوگا۔ سماعت کررہی بینچ نے کہا کہ ہمیں جو چیز پریشان کررہی ہے وہ یہ ہے کہ آپ ایسے حالات سے کیسے نپٹیں گے، جب لوگوں نے یہ زمینیں نیلامی میں خریدی ہوں، ریلوے کی زمین کے استعمال کو دھیان میں رکھتے ہوئے یہ شناخت ہونی چاہئے کہ زمین پر کن لوگوں کا حق نہیں ہے اور کن لوگوں کی بحالی کی ضرورت ہے، یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ وہاں دہائیوں سے آباد لوگوں کو ہٹانے کےلیے فورس کو تعینات کرنا ہوگا۔

سمیر چودھری۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر