نئی دہلی: ہندوستانی فوج کے خلاف دو ٹوئٹ کرنے کے الزام میں دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ نے جواہرلال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے طلبہ یونین کی لیڈر شہلا رشید پر معاملہ چلانے کی اجازت دے دی ہے۔ دہلی پولیس نے اس معاملے میں یہ اجازت طلب کی تھی۔ پولیس کا کہنا تھا کہ معاشرے میں ہم آہنگی خراب کرنے اور لوگوں کے درمیان ناراضگی پیدا کرنے کے لئے یہ ٹوئٹ کئے گئے تھے۔ یہ کارروائی ایک وکیل آلوک شریواستو کی شکایت پر مبنی ہے، جس میں پولیس نے آئی پی سی کی دفعہ 153 اے کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی۔ اب لیفٹیننٹ گورنر نے سی آرپی سی 1973 کی متعلقہ سیکشن 196 کے تحت کارروائی کرنے کی اجازت دے دی ہے۔شہلا رشید پرالزام ہے کہ انہوں نے 18 اگست 2019 کو ٹوئٹ کرکے ہندوستانی فوج پر بے بنیاد سنگین الزامات عائد کئے تھے۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ مسلح افواج رات میں گھروں میں گھس رہے ہیں، لڑکوں کو اٹھا رہے ہیں، گھروں میں توڑ پھوڑ کر رہے ہیں، جان بوجھ کر فرش پر راشن گرا رہے ہیں، چاول کے ساتھ تیل ملا رہے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے دوسرے ٹوئٹ میں لکھا، ‘شوپیاں میں 4 لوگوں کو آرمی کیمپ میں بلایا گیا اور پوچھ گچھ (ٹارچر) کی گئی۔ ان کے پاس ایک مائیک رکھا گیا تھا تاکہ پورا علاقہ ان کی چیخیں سن سکے اور خوفزدہ ہو۔ اس سے پورے علاقے میں دہشت کا ماحول بن گیا’۔حالانکہ اسی دن نیوز ایجنسی اے این آئی نے فوج کے حوالے سے بتایا تھا کہ ہندوستانی فوج نے شہلا رشید کے ذریعہ لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد بتاتے ہوئے خارج کردیا۔ فوج نے کہا تھا کہ اس طرح کی غیرتصدیق شدہ اور فرضی خبریں سماج دشمن عناصر اورتنظیموں کے ذریعہ لوگوں کو اکسانے کے لئے پھیلائی جاتی ہیں۔ اس کے بعد ایک ایڈوکیٹ الکھ آلوک شریواستو نے شہلا رشید کے مذکورہ ٹوئٹ اور ہندوستانی فوج کے ذریعہ کی گئی تردید سے متعلق شکایت اور ایک ایف آئی آر درج کی تھی۔جانچ ایجنسی نے اپنے تبصرہ میں کہا کہ معاملے کی نوعیت، مقام اور فوج پرجھوٹے الزامات لگانا اسے ایک سنگین مسئلہ بناتا ہے۔ مجرمانہ قانون کے تحت ہرٹوئٹ پر کارروائی نہیں کی جانی چاہئے، لیکن اس معاملے میں اس طرح کے ٹوئٹ پر شہلا رشید پر کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔
0 Comments