Latest News

جمیعتہ علمائے ہند کے دہلی اجلاس سے اٹھتے کچھ سوال۔

  ڈاکٹر  شاہد زبیری۔
 جس وقت یہ سطور لکھی جا ہی ہیں دہلی میں مسلمانوں کی تاریخ ساز جماعت جمیعتہ علمائے ہند (محمود مدنی) کے34ویں سہ روزہ کل ہند اجلاس کے آخری دن کارروائی جا ری تھی۔ یہ اجلاس ایسے وقت میں ہورہا ہے جب ملک اور خود ملّتِ اسلامیہ گو نا گوںحالات سے دو چار ہیں بھارت جوڑو یاترا سے لیکر اڈانی تک اور سڑک سے سنسد تک الزامات اور جوابی الزامات کادور جاری ہے اور سیاسی پارٹیاں 2024کیلئے اپنی اپنی سیاسی زمین ہموار کر نے کی تگ و دو میں ہیں اسی کیساتھ ملّی تنظیموںاور قائدین کی آر ایس ایس سے گفت و شنید کے تین ادوار کی بات ہوچکی ہے اور ماہ اپریل میں چوتھے دور کی مجوزہ بات چیت کی تیّاریا ں چل رہی ہیں ملّی کونسل جو اب تک اس بات چیت میں شریک نہیں تھی اس نے بھی آر ایس ایس سے گفتگو میں شرکت کی خواہش کا اظہار کردیا ہے ۔اس تناظر میں جمیعتہ کے اجلاس کی اپنی ایک اہمیت ہے ۔ اجلاس کے دوسرے د ن کی کارروائی میں زیادہ تر وہی مسائل زیرِ بحث آئے ہیں جن سے ملّت کو آزادی کے فوری بعد سے سابقہ رہا ہے ان میں کچھ مسائل نئے بھی ہیں اور حد درجہ تشویش ناک بھی جیسے اسلامی فوبیا کے تحت اسلام مسلمانوں کیخلاف منافرت کی زہریلی مہم ،مسلمانوں کی نسل کشی کی کھلے عام دیجا نے والی دھمکیا ں جن پر حکومت کی معنی خیز خاموشی ،مسلمانوں کی مذہبی اور عصری تعلیم کا مسئلہ روزگار کے حصول میں دشواریاں ،کامن سول کوڈ ،سی اے اے این آر سی وغیرہ جن پر تشویش ظاہر کی گئی ہے ۔اجلاس میں 17قرار دادیں بھی منظور کی گئی ہیں ان قرار دادوں بھی ان مسائل کی تکرار ہے ،مدارس اور علماءجنگِ آزادی کیلئے دی گئی قربانیوں کی بار بار دیجا نے والی دہا ئی بھی ہے اور سچر کمیٹی ،رنگا ناتھ کمیشن اور اقتصادی سروے کمیشن کی رپورٹوں کی بازگشت بھی ۔خاص بات یہ ہیکہ ملک کی معیشت کی مضبوطی میں مسلمانوں کی حصّہ داری کو بھی اجا گر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہیکہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں ہندوستانی مسلمان دن رات محنت کر کے 6ارب ڈالر کا زرِ مبالہ ہمارے ملک کے خزانہ میں جمع کرا رہے ہیں اسی کیساتھ اس بات پر بھی تشویش جتا ئی گئی کہ جن گھریلوں صنعتوںسے مسلمان روٹی روزی کماتے رہے ہیں حکومت کی نئی پالیسیاں ان کی صنعتوں کی تباہی کا باعث بن رہی ہیں دلت مسلمانوں کے رزرویشن میں حائل آئین کی دفعہ 341کو حذف کئے جا نے کی بجا ئے اس میں ترمیم کئے جا نیکا مطالبہ بھی شامل ہے اور وقف املاک کے تحفظ کیلئے 1857کے ایکٹ کے نفاذ کی مانگ بھی کی گئی ہے اور میڈیا کے اسلام اور مسلم دشمن وطیرہ کی بھی سخت مذمّت کی گئی ہے۔
اجلاس میں ہمارے علم کے مطابق کسی پہلی مسلم تنظیم نے مسلمانوں میں ذات برادری کی بنیاد پر اونچ نیچ اور امتیازی سلوک کو تسلیم کیا بلکہ اس ناانصافی پر افسوس جتا تے ہوئے اس لعنت کو ختم کرنے اور اسلامی مساوات کے تحت مسلمانوں کے درمیان معاشی ،سماجی اور تعلیمی لحاظ سے برابری قائم کئے جا نیکی ہر ممکن کوشش کا عہد لیا ہے جسکا خیر مقدم کیا جانا چاہئے ۔کہا جا سکتا ہیکہ جمیعتہ علماءنے یہ پہل اس لئے کی ہیکہ اندنوں سنگھ اور بی جے پی مسلم پسماندہ برادریوں پر ڈورے ڈال رہی ہیں اور مسلمانوں میں اشراف اور ارزال کی خلیج کو گہرا کرنیکی سازش کررہی ہیں اور بحیثیت ملّت مسلمانوں سیاسی قوت کا شیرازہ منتشرکرنا چاہتی ہیں ۔ ہندو پسماندہ برادیوں اور غیر بی جے پی جماعتوں کیطرف سے ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے وجہ کچھ بھی رہی ہو لیکن جمیعتہ علمائے ہند کیطرف سے مسلمانوںمیں اس لعنت کو ختم کئے جانیکا عہد قابلِ قدر ہے علاوہ ازیں جمیعتہ کے اس اجلاس میں مسلم خواتین کو بھی یاد رکھا گیا ہے اور ان کیساتھ ہورہی نا انصافی اور حق تلفی کو دور کر نے کیلئے مسلمانوں سے اپیل کی گئی ہیکہ مسلمان جائداد میں خواتین کوان کا حصّہ دیں ۔طلاقِ ثلاثہ کی بابت بھی شرعی قوانین پر عمل در آمد کرنیکی بات کہی گئی ہے اور واضح طور پر ایک وقت کی تین طلاقوں پر کچھ کہنے سے گریز کیا ہے ۔یہ اپیل اس لئے کہ گئی تاکہ حکومت کیطرف سے شریعت میں مداخلت کا موقعہ نہ ملے لیکن حکومت کیطرف سے اس مسئلہ پر بنائے گئے تین طلاق قانون پر کوئی تبصرہ ضروری نہیں سمجھا گیا۔
سنگھ سے مسلم تنظیموں اور مسلم قائدین کی طرف سے گفت وشنید پر بھی مولانامحمود مدنی نے اپنے خطاب میں مہر ثبت کی ہے اور ملک کے موجودہ تناظر میں ان کوششوں کا استقبال کیا ہے جو اس سمت میں کیجا رہی ہیں اور کہا کہ ' باہمی گفت وشنیدہی تمام مسائل کا حل ہے یا کم ازکم مسائل کو بڑھنے سے روکنے کا ذریعہ ہے' لیکن انہوں نے ہندو ازم اور ہندتوا کو ایک ساتھ لا کھڑا کیا ہندتو کی جو تشریح سنگھ یا بی جے پی یا ہندو مہا سبھا کرتی ہے ، ساور کے اس نظریہ سے جو واقف ہے وہ یہی کہیگاکہ ساور کر کا ہندوتو بعینہ ویسا ہی ہے جیسا کہ ہندوتوا وادی پیش کررہے ہیں اس میں کسی مغالطہ کا شکار ہو نیکی ضرورت نہیں ہاں اگر بات ہندو ازم یا ہندو مذہب یا سناتن دھرم کی ہے تو یقیناًً ہندتوا وادی طاقتیںہندو دھرم کی غلط تشریح کررہی ہیں ہندو دھرم کو ہی ہندتو ثابت کرنا چاہتی ہیں حالانکہ خود ہندتو کے نظریہ کے بانی ونائک ساورکر ایسا نہیں مانتے تھے ان کے نزدیک ہندتو کا نظریہ خالص سیاسی نظریہ ہے جو براہیمی مذاہب اسلام،عیسائیت اور یہو دی مذہب اور ہندوستانی مذاہب میں لکیر کھیچتا ہے اور شاید اسی لکیر کو مٹانیکی کوشش میں جہاں مولانا محمود مدنی نے یہ کہا کہ یہ ملک جتنا مودی اور بھاگوت کا ہے اتنا ہی محمود کا مطلب جتنا ہندﺅں کا ملک ہے اتنا ہی یہ ملک مسلمانوں کا ہے یہ تاریخی حقیقت ہے لیکن مولانا محمود مدنی نے اسی پر اکتفا نہیں کیا انہوں نے حضرت آدمؑ کے ہندوستان آنے اور اسلام کا آغاز ہندوستان سے ہونیکی بات کہ کر گودی میڈیا اور اسلام دشمن طاقتوں کو ڈگڈگی بجانیکا موقعہ فراہم کر دیا ۔یہ بات صحیح ہیکہ قرآن کی رو سے دنیا میں قدم رکھنے والے آدم ؑ پہلے انسان تھے اور پہلے نبی اور پہلے مسلمان تھے اسلام کا آغاز حضرت محمد سے نہیں بلکہ حضرت آدم ؑ سے ہوا اور حضرت محمڈ آخری نبی ہیںیہ اسلامی عقیدہ ہے ۔ تاریخ کی بنیاد پر حضرت آدم ؑ کے ہندوستان تشریف لانے یا ان کو یہاں کی سر زمین پر اتارے جا نے اور ہندوستان سے اسلام کا آغاز ہونیکی بحث ہماری نظر میں لایعنی ہے ۔حضرت عیسیؑ کی پیدائش سے 7ہزار سال قبل کی تاریخ کی بات کیجا تی ہے اس لئے آج دنیا میں قبلِ مسیح اور ما بعد مسیح تاریخ کا ہی چلن ہے ہمیں نہیں معلوم قبلِ مسیح کی تاریخ سے یہ کیسے ثابت کیا جا سکتا ہیکہ حضرت آدم ؑ ہندوستان بھیجے گئے تھے اس لئے کہ نبی آتے نہیں اللہ کیطرف سے بھیجے جا تے ہیں ۔کہاجا تا ہیکہ ایک لاکھ 24ہزار انبیاءدنیا میں تشریف لائے اسی کی بنیاد پر یہ قیاس مسلمانوں کیطرف سے کیا جا تا ہیکہ مبادا کوئی نبی ہندوستان میں بھی تشریف لائے ہوں لیکن تاریخی بنیاد پر ایسا دعویٰ کرنا کسی بھی طور مناسب نہیں چنانچہ اسلام اور مسلم دشمن میڈیا مولانا مدنی کے اس بیان کو لے اُڑا اور اس نے اس نے اس کو سناتن دھرم کیخلاف لاکھڑا کیا اس نے اس مسئلہ پر ایک طوفان کھڑا کردیا ہے اور اس کے ڈانڈے 2024کے انتخابات سے ملائے جا رہے ہیں اور پولورائیزیشن کا کھیل جاری ہے ۔میڈیا میں جمیعتہ علماءکے ذریعہ اٹھائے گئے مسلمانوں کے بنیادی مسائل اور قرردادوں کی بجا ئے اسی پر بیہودہ بحثیں چل رہی ہیں راقم نے دو بڑے قومی چینلوں کی بحث کو سنا بھی اور دیکھا بھی دونوں چینلوں کے الگ الگ پینل میںیہی لایعنی بحثیں تھیں "مسلم دانشور "بھی ٹی وی پر مولانا محمود مدنی کے کی تقریر کے اس حصّہ کا دفاع نہیں کر پائے ۔اس طرح کی بحثوں سے ان کوششوں پر بھی پانی پھر سکتا ہے جو سنگھ سے گفتگو کا سلسہ قائم رکھنے کی ملّی تنظیموں کیطرف سے کیجارہی ہیں۔کیا ہی اچھا ہوتا مولانا محمود مدنی اس لایعنی تنازع سے گریز کر لیتے اور اس مسئلہ کو نہ چھیڑتے ۔ جس وقت یہ مضمون اختتام پر تھا کہ اطلاع ملی کہ آج کے ا ختتامی اجلاس میں مولاناارشد مدنی کی تقریر سے بھی اسٹیج پر موجود جین منی بھڑک اٹھے اور سکھ پیشوا اور دگر سنتوں کیساتھ اجلاس سے واک آﺅٹ کرگئے ۔مولانا ارشد مدنی نے بھی مولا نا اسعد مدنی کی متنازع بات کو ہی آگے بڑھا یا ،" اللہ اور اوم "کی بحث اسٹیج پر ہی چھیڑدی معلوم نہیں جمیعتہ علماءکے قائدین نے یہ سوچی سمجھی حکمتِ عملی کے تحت ایسا کیا یا انجانے میں ایسا ہو گیا کچھ بھی ہو اس سے فسطائی طاقتوں کی باچھیں کھل گئی ہیں۔اب جبکہ ملک کے صوبائی انتخابات کا عمل شروع ہو گیا ہے اور 2024کے پارلیمانی انتخابات میں بھی کم وقت بچا ہے جمیعتہ کے اسٹیج سے یہ سب کچھ جو ہوا ہے اس سے سنگھ اور بی جے پی کیلئے راہ اورآسان ہو جا ئیگی اور پولرائزیشن میں بھی مدد ملیگی۔ ہندو مسلم کا کھیل کھیلنے کیلئے میڈیا کے ہاتھ بھی کافی مصالحہ لگ گیا ہے۔ جو چاہے آپکا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر