Latest News

دنیا کے پہلے انسان"منو"حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ نےہندوستان میں اتارا۔

از۔ ڈاکٹر مولانا تمیم احمد قاسمی۔ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قائد جمعیۃ حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب دامت برکاتہ صدر جمعیۃ علماء ہند ورکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند کی صدرات میں جمیعت علماءہند کے34 ویں اجلاس عام منعقد ہوا۔اس اجلاس عام میں جانشین حضرت شیخ الاسلام امیر الہند صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب عمت فیوضھم صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند کا بیان توحید پر ہؤا۔حضرت کی تقریر کے بعد جین دھرم کےراہنمااچاریہ لوکیش منی مائک پر آئے۔اور حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب کی تقریر سے نااتفاقی کا اظہار کیا۔ان کے بعد ایک پنڈت جی آئے انہوں نے کہا کہ ہم میں مت بھید ( اختلاف رائے )تو ہوسکتا ہے من بھید ( کینہ)نہیں ہونا چاہیے ۔ پھر ایک سکھ بھائی آئے انہوں نے کہا کہ ہم بھی آپ ہی کی طرح توحید پرست ہیں.اس رب کا کوئی شریک نہیں وہ اکیلا ہے۔وغیرہ وغیرہ۔حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب عمت فیوضھم نے ڈنکے کی چوٹ پر بالکل صحیح فرمایا کہ ہندوستان میں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام تشریف لائے اور ان کا مذہب توحید کا تھا شرک کا نہیں تھا۔علماء کرام حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہ کے اس بیان کی بھرپور تائید کرتے ہیں اورحضرت والا پوری امت مسلمہ کی طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں۔۔۔۔۔"ہندوستان ہمارا" کتاب صفحہ نمبر 1 تا 11 میں مجاہد تحریک آزادی ہند فکر شیخ الہند شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی صاحب رحمتہ اللہ علیہ سابق صدر جمعیۃ علماءہندوشیخ الحدیث وصدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند تحریر فرماتے ہیں۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم۔ہندوستان کے باشندوں میں صرف مسلمانوں کا حق ہے کہ وہ اس ملک کو اپنا قدیمی آبائی وطن کہیں اور وہ اس میں حق بجانب ہیں۔ہندوستان میں بسنے والی قوموں میں صرف مسلمان ایسی اقوام قدیمہ میں سے ہیں.جن کا مذہب اور عقیدہ یہ ہے کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔اور انسانی نشونما فقط حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا ہے۔یہی قرآن کی تعلیم ہے۔ باقی اقوام ہندیہ اسکے قائل نہیں ہیں۔ اسلامی کتابیں یہ بتاتی ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام ہندوستان ہی میں اتارے گئے۔اور یہاں ہی انھوں نے سکونت کی اور یہاں ہی سے ان کی نسل دنیا میں پھیلی۔ اور اسی وجہ سے انسانوں کو آدمی کہاجاتا ہے(ہمارا ہندوستان)آدم کے لغوی معنی ہیں،’بھورا، مٹیالہ، گندمی، سب آدمیوں کا باپ، پہلا آدمی جس سے انسان کی نسل شروع ہوئی۔‘‘آدم کی تخلیق سے پہلے کائنات میں موجود لاکھوں مخلوقات میں ممتاز ایک مخلوق ’’جن‘‘ موجود تھی۔ اس مخلوق نے جب زمین پر فساد برپا کر دیا تو اللہ نے ایک نئی مخلوق بنائی۔ اس مخلوق کا پہلا فرد آدم ہے۔آدم علیہ السلام ہی دنیا کے پہلے انسان تھے۔ارشاد باری ہے:خَلَقَہ، مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہ، کُنْ فَیَکُوْنُ.(آل عمران٣:٥٩)''خدا نے اس (آدم) کو مٹی سے پیدا کیا، پھر اس سے کہا کہ تو ہو جا تو وہ ہو گیا۔''یعنی آدم کے ماں باپ نہ تھے۔ رہا یہ سوال کہ اللہ نے آدم کو مٹی سے کیسے بنایا تو یہ اُن امور میں سے ہے، جن کا اللہ نے ہمیں مشاہدہ نہیں کرایا۔لہٰذا، ہم یقین کے ساتھ کچھ بھی نہیں کہہ سکتے، بس جتنے الفاظ قرآن میں آئے ہیں، انھی کو بیان کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ وہ مٹی جس سے آدم کو بنایا گیا تھا ،وہ پہلے گارا تھی پھر سوکھ کر کھنکھنانے لگی، پھر ایک مرحلے پر اس میں روح پھونکنے کا عمل ہوا تھا۔ ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ اس عمل کی حقیقت کیا تھی۔یقیناآدم علیہ السلام ہی پہلے نبی تھے، جیسا کہ ارشاد باری ہے:اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰۤی اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰہِیْمَ.(آل عمران٣:٣٣)'' بے شک اللہ نے منتخب فرمایا (نبوت کے لیے) آدم علیہ السلام، نوح علیہ السلام اور آل ابراہیم علیہ السلام کو۔اس آیت میں آدم علیہ السلام کی نبوت کا ذکر ہے۔فرشتوں کے سجدہ کرنے کا واقعہ تمثیلی نہیں ،بلکہ حقیقی ہے۔ اس کا حکم اللہ نے تخلیق آدم سے پہلے ہی فرشتوں کو دے دیا تھا۔ ارشادباری ہے:وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰۤئِکَۃِ اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ فَاِذَا سَوَّیْتُہ، وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہ، سٰجِدِیْنَ.(الحجر١٥:٢٨-٢٩)'' اور یاد کرو جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں تو جب میں اس کو مکمل کر لوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک لوں تو تم اس کے لیے سجدے میں گر پڑنا۔''اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے فرشتوں کو تخلیق آدم سے پہلے ہی سجدے کا حکم دے دیا تھا۔ چنانچہ یہ بات تمثیلی نہیں ہو سکتی۔روایت میں ہے کہ حضرت آدمؑ علیہ السلام کو ہند، حضرت حوّاؑ علیہ السلام کو جدّہ اور ابلیس کو بصرہ سے چند میل کے فاصلے پر، دمستیمان کے مقام پر اُتارا گیا۔حضرت سدیؒ فرماتے ہیں کہ’’ جب حضرت آدمؑ علیہ السلام جنّت سے ہند میں اُترے، تو اُن کے پاس حجرِ اسود تھا اور جنّت کے درختوں کے پتّوں کی ایک مُٹھی بھی تھی۔پھر حضرت آدمؑ علیہ السلام نے ان پتّوں کو زمین پر پھیلا دیا اور یہ خُوش بُودار درخت اُن پتّوں ہی کی پیداوار ہیں۔‘‘حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ’’ حضرت جبرائیلؑ علیہ السلام، حضرت آدمؑ علیہ السلام کے پاس آئے اور گندم کے سات دانے ساتھ لائے۔حضرت آدمؑ علیہ السلام نے پوچھا’’ یہ کیا ہے؟‘‘،عرض کیا’’یہ اُس درخت کا پھل ہے، جس سے آپ کو روکا گیا تھا، لیکن آپ نے تناول کر لیا تھا۔‘‘فرمایا’’ تو اب میں اس کا کیا کروں؟‘‘، عرض کیا’’ ان کو زمین میں بو دیجیے۔‘‘حضرت آدمؑ علیہ السلام نے بو دیئے اور وہ دانے وزن میں ان دنیا کے دانوں سے لاکھ درجے زیادہ تھے، وہ دانے اُگے، حضرت آدمؑ علیہ السلام نے فصل کاٹی، پھر دانوں کو (بھوسی) سے جدا کیا۔پھر صفائی کی، اُسے پیس کر آٹا گوندھا اور روٹی پکائی۔ اس طرح محنت و مشقّت کے بعد اسے کھایا‘‘ (قصص القرآن۔ابنِ کثیر)حضرت آدم علیہ السلام کے پیدا ہوئے کتنے سال گزر چکے ہیں ؟حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت محمد ﷺ کے بیچ کا وقفہ کیا تھا ؟حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت موسی علیہ السلام کے درمیان وقفہ کیا تھا ؟یہ نہ قرآن میں موجود ہے اور نہ ہی کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے ؛البتہ اس بارے میں بعض تاریخی روایات ملتی ہیں؛چنانچہ امام ابن عساکر رحمہ اللہ نے دنیا کی مجمل تاریخ اس طرح لکھی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کے درمیان ایک ہزار دوسو برس کا فاصلہ ہے اور حضرت نوح علیہ السلام سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے درمیان ایک ہزار ایک سو بیالیس سال کا فاصلہ ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے حضرت موسی علیہ السلام تک پانچ سو پینسٹھ برس کا فاصلہ ہے ،اور حضرت موسی علیہ السلام سے حضرت داؤد علیہ السلام تک پانچ سو انہتر برس اور حضرت داؤد علیہ السلام سے حضرت عیسی علیہ السلام کے درمیان ایک ہزار تین سو چھپن برس اور حضرت عیسی علیہ السلام سے خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ تک چھ سو برس کا فاصلہ ہے ،جہاں تک ان انبیاء کے حیات رہنے کا تعلق ہے تو حضرت آدم علیہ السلام نوسو ساٹھ برس حضرت نوح علیہ السلام نوسو پچاس برس ،حضرت ابراہیم علیہ السلام دوسوبرس،حضرت داؤد علیہ السلام ایک سو برس ،حضرت عیسی علیہ السلام تینتیس برس اور آپ ﷺ تریسٹھ برس تک بقیدِ حیات رہے ؛لہذا مذکورہ بالا حساب کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کے دنیا میں تشریف لانے سے لے کر اب تقریباً نوہزادوسو اٹھاسی سال گزر چکے ہیں ،نیز آپ ﷺ اور حضرت آدم علیہ السلام کے بیچ کادرمیانی وقفہ تقریباً چھ ہزار آٹھ سو پینتیس سال ہے ،اور حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت موسی علیہ السلام کے درمیان کا وقفہ ایک ہزار نوسو سات سال کا ہے۔(تاریخ دمشق لابن عساکر 1/ 31،الناشر: دار الفکر للطباعة والنشر)اللہ تعالی ہمارے تمام اکابرین کو صحت وعافیت عنایت فرمائےاورجمعیۃ علماء ہندکی خدمات کو قبول فرمائے آمین یا رب العالمین

از۔ ڈاکٹر مولانا تمیم احمد قاسمی۔ ناظم۔ انجمن قاسمیہ چنئی ٹمل ناڈو۔ چیرمین۔ آل انڈیا تنظیم فروغ اردو 9444192513

شعبہ نشرواشاعت۔ انجمن قاسمیہ پیری میٹ چنئی ٹمل ناڈو انڈیا
anjumanqasimiyah@gmail.com

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر