Latest News

بال وِوَاہ کے نام پر آسام کے عوام کو خوف میں مبتلا کیا جارہاہے، پریس کلب آف انڈیا میں ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن کی پریس کانفرنس، فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پیش۔

نئی دہلی:  قومی دارالحکومت دہلی کے پریس کلب آف انڈیا میں ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) کی جانب ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں بچوں کی شادی کی روک تھام کے نام پر آسام حکومت کی کارروائی پر ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پیش کی۔ اس پریس کانفرنس میں فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کا حصہ رہی ایڈووکیٹ تمنا پنکج اور ایڈووکیٹ محمد مبشر انیق نے آسام کے حالات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ لڑکیوں کے تحفظ کے نام پر آسام میں جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ آسام کے لوگوں کو خوف میں مبتلا کر رہا ہے۔ ایڈووکیٹ تمنا پنکج کا کہنا ہے کہ نابالغ لڑکیوں کے تحفظ کے نام پر آسام کے ان لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جو بہت غریب ہیں اس طرح کے کیسز کی تعداد فی الحال 4 ہزار سے زیادہ ہے۔گولا گھاٹ میں 64، ہیلاکانڈی میں1، حمرین میں 15، ہوجائی میں 255، جورہٹ میں 25، کمروب میں 80، کربی انگلوک میں 126، کریم گنج میں 92، کوکراجھار میں 204، لکھیم پور میں 32، مجولی میں 44، ماریگاؤں میں 224، ناگاؤں میں 113 ، نلباری میں 171، سعدیہ میں 85، سیو ساگر میں 54، سونتپور میں 60، ساوتھ سلمارہ میں 145، تامولپور میں110 ، تنسوکیہ میں 73، اودالگری میں 235، کیسز رجسٹرڈ کیے جا چکے ہیں جن میں اب تک تقریبا 3 ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ 27/ 1/ 2023 کو آسام کی حکومت نے بچوں کی شادیوں پر کریک ڈاؤن کرنے کا کابینہ میں فیصلہ کیا تھا۔ یہ فیصلہ 2019 اور 2020 میں کیے گئے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے 5 کی جاری کردہ رپورٹ کے بعد کیا گیا تھا۔ آسام میں سروے کے مطابق تقریبا 31 فیصد خواتین 18 سال کی قانونی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی شادی کر لیتی ہیں۔ آسام کے وزیر اعلی نے تین فروری 2023 کو دیے ایک بیان میں بتایا تھا کہ آسام میں 16.8 فیصد نو عمری کا حمل شادی کی قانونی عمر سے قبل ہی ہو جاتا ہے۔اس رپورٹ کے مطابق آسام میں حالیہ کریک ڈاؤن کے غیر اخلاقی حملے نے بہت سی زندگیوں کو اپنی زد میں لے لیا ہے۔ ریاست اپنے ہی شہریوں بالخصوص پسماندہ اور متاثرہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے تحفظ سے انکار کر رہی ہے۔ آسام میں حالیہ حقائق تلاش کرنے والی رپورٹ میں ریاست میں گہری تشویش ناک صورتحال کا انکشاف کیا ہے۔ نتائج سے پتا چلتا ہے کہ کریک ڈاؤن کے نتیجے میں انسانی حقوق کی نمایاں خلاف ورزیاں ہوئی ہیں جن میں غیر منصفانہ، من مانی گرفتاری، کمزور گروہ کو نشانہ بنانا، حاملہ خواتین کی صحت کے حالت کو متاثر کرنا شامل ہے۔ ایڈووکیٹ مبشر نے کہا کہ کریک ڈاؤن میں آسام کے لوگوں پر حالات کا گہرا اثر پڑا ہے خاص طور پر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد پر جو حکومت کے اقدامات سے غیر متناسب طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ مناسب عمل کے فقدان اور طاقت کے استعمال نے رہائشیوں کے ذہنوں میں خوف پیدا کردیا ہے جس کے سبب وہ اپنے حقوق کے مکمل تحفظ سے بھی انکار کر رہے ہیں۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر