Latest News

معاملہ اڈانی کا: ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔

شکیل رشید۔ 
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز) 
کہتے ہیں یہ چولی دامن کا ساتھ ہے۔
بات گوتم اڈانی اور وزیراعظم نریندر مودی کی ہو رہی ہے ۔ وہی اڈانی جو ان دنوں دنیا بھر کی خبروں کا موضوع بنے ہوئے ہیں ، اور اپنے ساتھ پی ایم مودی کو بھی موضوع بنائے ہوئے ہیں ۔ بات اگر خبروں کا موضوع بننے تک ہی رہتی ، تب بھی ٹھیک تھا ، لیکن کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں ، کہ یہ جو دونوں کے درمیان چولی دامن کا ساتھ ہے ، یہ ایک کے ڈوبنے پر دوسرے کو بھی لے ڈوبے گا ۔ مطلب یہ کہ اگر گوتم اڈانی ڈوبے تو مودی کے لیے مشکلوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو جائے گا جس سے ابھر پانا ان کے لیے ممکن نہیں ہوگا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اڈانی ڈوبیں گے ؟ اور اگر ڈوبیں گے تو ،کیوں ؟ اگر ہم ۲۴ ، جنوری کے بعد سے لے کر آج کے دن تک ، اڈانی کے کاروبار میں آئے اتار چڑھاؤ پر نظر ڈالیں تو صاف صاٖ ف اڈانی انٹرپرائزز کی نیّا ’ ڈوبتی ‘ نظر آجائے گی ۔ مذکورہ تاریخ کو ایک امریکی فرم ’ ہنڈن برگ ریسرچ ‘ کی ۱۰۶ صفحات پر مشتمل رپورٹ منظرِ عام پر آئی تھی ، ایک ایسی رپورٹ جس نے گوتم اڈانی اور ان کے کاروبار کی چولیں ہلا دی تھیں ، ان کے شیئر ملک اور بیرون ملک کے شیئر بازاروں میں اس تیزی سے گرے تھے جیسے پہاڑوں کی بلندی سے ٹوٹ کر چٹانیں گرتی ہیں ۔ اور خود گوتم اڈانی ، جو اس رپورٹ کے آنے سے قبل دنیا کے تیسرے سب سے دولتمند شخص تھے ، دولت مندوں کی فہرست میں گیارہویں مقام پر آ گیے تھے ، اور ان کی دولت اتنی تیزی سے گھٹی تھی جس قدر تیزی سے کہ کسی چھلنی سے چھانی جانے والی چائے گرتی ہے ۔ نہ چولیں ہلنے کا سلسلہ تھما ہے ، نہ ہی اڈانی گروپ کے شیئروں کا گرنا رُکا ہے اور نہ ہی دولت مندوں کی فہرست میں گوتم اڈانی کا نیچے سرکنا بند ہوا ہے ۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ ۲۴ ، جنوری کو اڈانی گروپ کا مارکیٹ کیپ جو ۱۹ اعشاریہ ۲۴ لاکھ کروڑ روپیے تھا ، وہ گر کر ۱۰ اعشاریہ ۰۷ لاکھ کروڑ روپیہ پر آ پہنچا ہے ، اور گراؤٹ تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے ۔ گوتم اڈانی کی ذاتی دولت میں کمی آئی ہے ، ماہرینِ معاشیات کے مطابق انہیں سو بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے ، جس کے نتیجے میں ان کے گروپ کی مارکیٹ ویلیو یعنی بازار میں قدر ، نصف رہ گئی ہے ۔ انہیں سوئس کریڈٹ اور امریکہ کی سٹی بینک نے قرض دینے سے انکار کر دیا ہے ، ان کے بونڈ کی مالیت کو ’ صفر ‘ قرار دے دیا گیا ہے ، اور امریکہ کے اسٹاک ایکس چینج ’ ڈاؤ جونز ‘ نے ان کے گروپ کو ’ قابل اعتبار ‘ کمپنیوں کی فہرست سے باہر کر دیا ہے ۔ آسٹریلیا سے خبر آ رہی ہے کہ وہاں کی حکومت اڈانی کے آسٹریلیا کے کاروبار کی جانچ کرانے پر غور کر رہی ہے ، ادھر بنگلہ دیش سے جو پاور پلانٹ کا معاہدہ ہوا تھا اس میں بھی کئی اڑچنیں نکل آئی ہیں ۔ اور برطانیہ میں سابق وزیراعظم بورس جانسن کے بھائی لارڈ جو جانسن نے ایلارا نام کی ایک ایسی کمپنی کی ڈائریکٹر شپ سے استعفیٰ دے دیا ہے ، جس کا سیدھا تعلق اڈانی سے بتایا جاتا ہے ۔ عالمی ریٹنگ ایجنسیوں فچ اور موڈیز نے بھی منفی اشارہ دیا ہے اور ایس اینڈ پی نے بھی گروپ کی دو کمپنیوں کے لیے ریڈ فلیگ دکھایا ہے ۔ گویا یہ کہ گوتم اڈانی اور ان کا پورا گروپ ایک شدید گرداب میں آ پھنسا ہے ۔ 
یہ سب کیوں ہو رہا ہے ؟ آخر دنیا کے تین نمبر ، اور ایشیا و ہندوستان کے ایک نمبر کے امیرترین گوتم اڈانی دیکھتے ہی دیکھتے عرش سے فرش پر کیسے اور کیوں آ گرے ؟ کیا ہے ’ ہنڈن برگ ریسرچ ‘ کی رپورٹ میں؟ ان تینوں سوالوں کے جواب مشکل نہیں ہیں ۔ ’ ہنڈن برگ ریسرچ ‘ نے کوئی دو سال تک اڈانی گروپ اور دنیا کے دولت مندوں میں سے ایک گوتم اڈانی کی بڑی ہی باریک بینی سے تحقیقات کی ہے ، یہ اس کا دعویٰ ہے ۔ تحقیقات کاروبار کے طریقۂ کار کی کی گئی ہے ، اور اس تحقیقات کا سبب اچانک اڈانی کا چوٹی پر پہنچنا ہے ۔ کبھی یہ دنیا کے دولت مندوں کی فہرست میں ۵ سویں مقام سے بھی نیچے تھے ! لیکن ۲۰۱۴ء کے بعد ان کی دولت بڑھنے لگی اور کووڈ کے ایّام میں ، جب لاک ڈاؤن لگا ہوا تھا اور ساری دنیا کا کاروبار بند تھا ، ان کی دولت اس قدر تیزی سے بڑھی کہ وہ دولت مندوں کی فہرست میں تیسرے نمبر پر آ گیے ! ’ ہنڈن برگ ریسرچ ‘ کا دعویٰ ہے کہ اڈانی گروپ نے اپنی دولت میں اضافہ کرنے کے لیے شیئروں کے دام بڑھانے کے لیے غیرقانونی طریقے اپنائے ، اپنے کھاتے میں ہیراپھیری کی اور کالا دھن استعمال کیا اور فرضی کمپنیاں بناکر ، جنہیں شیل کمپنیاں کہا جاتا ہے ، ان کے ذریعے منی لانڈرنگ کی ۔ یہ الزام لگایا گیا ہے کہ اڈانی گروپ نے اپنی ہی کمپنیوں کے شئیر خریدے ۔ یہ الزامات انتہائی سنگین ہیں ، اور چونکہ کیتن پاریکھ کے ساتھ مل کر اڈانی نے پہلے بھی شیئر کے دام بڑھانے کا کھیل کھیلا تھا اس لیے ’ ہنڈن برگ ریسرچ ‘ کی رپورٹ کو سنجیدگی سے لیا گیا ۔ ایک عرصے سے خود ہندوستان میں اڈانی کے کاروبار کے طریقۂ کار پر انگلیاں اٹھتی رہی ہیں ، الزامات لگتے رہے ہیں کہ گوتم اڈانی اپنی کمپنی چلانے کے لیے غیراخلاقی طریقے استعمال کر رہے ہیں ، بلکہ قانون سے کھلواڑ کر رہے ہیں ۔ ایک سوال گجرات کے ان کے سمندری پورٹ پت بڑی مقدار میں ضؓبط کی جانے والی منشیات پر بھی اٹھا ہے ۔ منشیات کس کی تھی اور کہاں گئی آج تک اس کا پتہ نہیں چلا ہے ۔ چونکہ اڈانی کے رشتے پی ایم مودی سے انتہائی گہرے ہیں ، اس لیے یہاں کسی کی ہمت نہیں تھی کہ وہ اڈانی کے کاروبار پر کچھ کہے ، اور نہ ہی میڈیا اور کسی ایجنسی میں یہ دَم تھا کہ وہ اڈانی کی چھان بین کرے ۔ کیسے ممکن تھی چھان بین جب مودی بذات خود اڈانی کے ہوائی جہاز پر اپنا الیکشن پرچار کرتے گھومتے ہوں اور اڈانی خود مودی کے ساتھ ان کے جہاز پر عالمی بزنس میٹنگوں میں شریک ہونے کے لیے جاتے ہوں ! پی ایم مودی کے عروج سے اڈانی کا عروف شروع ہوا ہے ، کوئلہ کا کاروبار انہیں ملا ، ان کے ہاتھ میں پورٹ آئے ، ائر پورٹ آئے ، گیس کا کاروبار آیا ، اناج اور فوڈ ، اور نہ جانے کیا کیا آیا ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ پی ایم مودی کے اشارے پر ہی ایل آئی سی اور اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے اڈانی میں سرمایہ کاری کی ، حصص خریدے ، قرض دیا ۔ یہ سرکاری کمپنیاں ہیں ، اور اڈانی ڈوبے تو ان کے ساتھ یہ بھی ڈوب سکتی ہیں ، اور ان کے ڈوبنے کا مطلب عوام کا ڈوبنا ہے ۔ اور ساتھ ہی بہت سارے بینک بھی ڈوبیں گے ۔ 
 سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ کیوں چند لاکھ یا چند کروڑ روپیوں کے لیے لوگوں کی ، بلکہ یوں سمجھیں کہ مودی مخالفوں کی چھان بین کرنے والی ایجنسیاں ای ڈی ، ڈی آئی آر ، سی بی آئی وغیرہ اڈانی کی چھان بیں نہیں کر رہی ہیں ؟ اور کیوں حکومت انکوائری کرانے کے لیے راضی نہیں ہے ؟ شاید اس لیے کہ حکومت کو یہ ڈر ہے کہ اڈانی کا راز سامنے آیا تو اس کا ، بی جے پی کا اور بی جے پی کے لیڈروں کا راز بھی کھل جائے گا ۔ عام آدمی پارٹی کے ایم پی سنجے سنگھ نے تو یہ الزام تک لگا دیا ہے کہ اڈانی کے کاروبار میں بی جے پی کے بڑے لیڈروں کا کالا دھن لگا ہوا ہے ! واللہ اعلم ۔ لیکن ان الزامات کے تلے اڈانی کے ساتھ پی ایم مودی اور ان کی حکومت دبی جا رہی ہے ۔ بھلے یہ دلاسہ دیا جائے کہ سب ٹھیک ہے ، ایل آئی سی اور ایس بی آئی محفوظ ہیں ، لیکن جو بھی نقصان ہوا ہے ، وہ عوام کا ہی تو نقصان ہے ، کون اس کی بھرپائی کرے گا ؟ سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا مودی خود کو بچانے کے لیے اڈانی کو ڈمپ کر دیں گے ، انہیں بلی کا بکرا بنا دیں گے ؟ ممکن ہے ، لیکن یہ آسان نہیں ہوگا کیونکہ دونوں کے رشتے جگ ظاہر ہیں ۔ اور پھر جب کوئی ڈوبنے لگتا ہے تو اپنے ساتھ دوسرے کو بھی ، جو اس کے آس پاس ہو ، لے ڈوبتا ہے ۔ لہٰذا معاملہ ’ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے ‘ جیسا بنتا جا رہا ہے ۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر