دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث مولاناسلمان بجنوری نے وائی ایم سی اے گرائونڈ میں ہزاروں مسلمانوں کے مجمع عام سے انجمن اہل السنہ والجماعۃ کے سہ روزہ ’تحفظ سنت وعظمت صحابہ کانفرنس‘ کے آخری دن کلیدی خطاب فرماتے ہوئے کہا کہ صحابہؓ کا انتخاب ہوا اور انبیاء کرام کا بھی انتخاب ہوتا ہے۔ یہ اللہ کا انتخاب ہوتا کہ کسے پیغمبر بنائیں، پیغمبر بھی منتخب ہوتے ہیں پیغمبر جو خاتم الرسل والنبین ہیں ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے رفقاء اور مستفیدین منتخب کیے، وہ حضرات صحابہؓ ہیں، اس کا مقصد کیا تھا کہ دین اصل اور حقیقی شکل میں محفوظ رہےاور امت تک پہنچ جائے، مسئلہ صرف دین کے الفاظ کا نہیں تھا، قرآن کے الفاظ کو بعینہ پہنچانا یہ بھی مقصد تھا، اس کے علاوہ حضرت پیغمبر ﷺ کے جو فرائض تھے وہ صرف الفاظ قرآن پہنچانے کے نہیں تھے’اللہ تعالیٰ کی کتاب کو بعینہ پہنچادینا اور اس کتاب کی روشنی میں انسان تیار کرنا، اس کے مطابق کردار والے انسان تیار کرنا اور پھر اس کتاب کے علوم کو سمجھانے کےلیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ذریعے جو کچھ عطا کیاگیا، اس کو کتاب اور حکمت کی تعلیم کے عنوان سے امت کو سکھانا، یہ سارے فرائض تھے اللہ کے رسولﷺ کے۔ امت کو اللہ کی کتاب کے الفاظ کے ساتھ ساتھ دین کا مزاج اور دین کا علمی مزاج ، دین کا عملی مزاج، یہ سب پیش کرنا مقصد تھا، اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کے لیے منتخب کردیا، اور منتخب ہونے کی دلیل یہ سمجھ میں آتی ہے کہ آپ صحابہ ؓکے طبقات کا اور ان کے قبائل کا جائزہ لیں۔ کہ مکے میں رہنا والا ابو جہل اور حضورﷺ کے خاندان کا سگا چچا ابولہب محروم رہتے ہیں ایمان سے اور فارس کا رہنے والا سلمان آتا ہے اور روم کا رہنے والا صہیب آتا ہے وہ صحابی بنتے ہیں، یہ کیا چیز ہے آخر یہ انتخاب ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ روح ہے جو منتخب کیاگیا تھا وہ کھنچ کھنچ کر پہنچ گئی اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں۔ منتخب کیاگیا ان کو مقصد تھا دین کو اس کی تمام تفصیلات کے ساتھ، الفاظ کتاب اللہ کے ساتھ ، اور مزاج نبوی کے ساتھ نبوی اور قرآنی کردار کے ساتھ محفوظ طریقے سے امت کو پہنچانا۔ اسی وجہ سے حضرت محمدﷺ نے معیار مقرر کرنے کا جب موقع آیا، ہر بات ہر وقت نہیں بیان کی جاتی، لیکن جب آپ نے یہ بیان کیا کہ امت کے اندر اختلاف ہوگا، اور گمراہ فرقے پیدا ہوں گے او راس میں ہدایت پر ایک طبقہ ہوگا ، یہ تھا وہ موقع جہاں معیار بتانا تھا کہ ہدایت کا معیار کیا ہوگا تو آپ نے اپنے نام کے ساتھ اپنی ذات کے ساتھ اپنے اصحاب کا ذکر فرمایا ما انا علیہ واصحابی‘‘۔ مولانا نے انجمن کی کارکردگی کو سراہا اورملک کی اقتصادی راجدھانی میں اس طرح کے دینی اور عقائد پر مبنی پروگرام کے انعقاد پر مبارک باد دی۔ اس سے قبل مولانا خالدندوی غازی پوری(استاذ ندوۃ العلماء لکھنو) نے فرمایا کہ ’سلامتی کو کاٹنے والی چیز خوف اور حزن وملال ہے اگر خوفزدہ ہیں تو کوئی سنجیدہ عمل نہیں کرسکتے، اگر خوف طاری ہے تو آپ مکان نہیں بناسکتے ہیں، خوف طاری ہے تو آپ چل نہیں سکتے ہیں۔ اور حزن وملال سے دل ٹوٹا ہوا ہے، آنکھیں اشک بار ہے، دماغ مائوف ہے، ہاتھوں میں رعشہ ہے، لرزہ براندام ہیں تو آپ کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔ لہذا امن وامان کی سلسبیل کو روکنے والی ، امن وامان کو ختم کرنے والی چیز کیا ہے وہ خوف اور حزن وملال ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جنت سے رخصت کے وقت آدم علیہ السلام سے کہا کہ ’آپ کہہ دیجئے سب کے سب اتر جائیں، آپ کی امت بھی، ملت بھی، نسل بھی سب کے سب اتر جائیں، تو ضرور میری طرف سے ہدایت کی قندیل آپ کو روشنی دینے کےلیے فراہم کی جائے گی، لہذا اس سے جو استفادہ کرے گا، اس کی روشنی میں جو چلے گا، اس نور کو پیش رو اپنا بنائے گا، آنکھوں میں اس سے تنویر کی جوت جلائے گا، تو ان شاء اللہ اس پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ حزن وملال میں مبتلا ہوگا‘‘۔ انہوں نے کہاکہ امن وامان کا گہوارہ وہ گویا کہ آئین ہے زندگی کا جس کی بشارت، جس کی ضمانت حضرت آدم علیہ السلام کو جنت میں دی گئی تھی، وہ آئین کے حصے، ضرورت کے مطابق نازل کیے جاتے رہے اور بالآخر اخیر میں خاتم النبین ﷺ کے ذریعے اس آئین کو مکمل کردیاگیا۔ لہذا آپ ﷺعرفات کی وادی میں کھڑے ہوکر ’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی الخ ‘ کا نغمہ سنایا‘،’آج مکمل کردیاگیا دین کو، نعمتوں کا اتمام ہوگیا، جتنی نعمتیں ہیں سب کھول کر دے دی گئیں، خواہ وہ مادی نعمتیں ہو، روحانی نعمتیں ہو، ہر طرح کی نعمتیں آپ ﷺ کو عطا فرما دی گئیں۔ حضرت ابوہریرۃؓ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ نے ہمارے ہاتھ میں زمین کی کنجیاں رکھ دی ہیں، حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ ’تم اسی کنجی کو ہاتھ میں لے کر آج خزانے نکال رہے ہو، پٹرول کی شکل میں، ڈیزل کی شکل میں، سونے کی شکل میں چاندی کی شکل میں، ابرک کی شکل میں نہ جانے کیسی کیسی کانیں کوئلے سے لے کر جوہر تک، ساری چیزیں اس سے نکل رہی ہیں، اور حضورﷺ کی آمد ناس کی یہ برکت ہے جو ہمارے سامنے آرہی ہیں۔ لہذا اللہ رب العزت نے دنیا وی اعتبار سے اور دینی اعتبار سے اس آئین کے ذریعے قرآن پاک کے ذریعے جو اللہ کی کتاب ہے ، دنیا میں کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں شہادت دی جاسکے، قسم کھائی جاسکے، کہ اپنی اصل کے اعتبار سے یہ ہے، یہاں تک کہ توریت وانجیل کے بارے میں بھی یہ بات نہیں کہی جاسکتی، اسی لیے حضرت عمر ؓ نے جب توریت کا ایک حصہ پڑھ کر پیش کرنا چاہا تو حضورﷺ نے خفگی کا اظہار کیا۔ قرآن وہ کتاب ہے جس کے بارے میں کہاگیا سلامتی راہوں کو اگر تم چاہتے ہو، انسانیت کو نوازناچاہتے ہو، انسانیت کا پیکر پیش کرناچاہتے ہو، حالات کو درست کرناچاہتے ہو، سب کے دلوں میں محبت کی جوت جلاناچاہتے ہو تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی کتاب ہے جو نور ہدایت ہے۔ اللہ رب العزت نے دو نوریں عطا فرمائیں ایک نور فطرت اور دوسرے نور ہدایت۔ نور فطرت عام ہے اور نور ہدایت خاص ہے۔
بتادیں کہ پروگرام کا آغاز قاری بدرعالم (استاذ جامعہ عربیہ چیتا کیمپ) کی تلاوت سے ہوا، بارگاہ رسالت میں نعت نبیﷺ کا نذرانہ مولانا احمد حسین قاسمی (امام و خطیب مسجد دار ارقم گوونڈی) نے پیش کیا اور نظامت مفتی سعید الرحمان قاسمی (صدر مفتی دارالعلوم امدادیہ ممبئی) نے کی۔ اسٹیج پر موجود علمائے کرام میں مولانا قاری صادق خان، مولانا حافظ اقبال چوناوالا، مولانا شاہد ناصری، مولانا ذاکر قاسمی، حافظ عظیم الرحمن (ناظم اعلیٰ دارالعلوم امدادیہ)، مولانا بدرالدجی قاسمی، فتی آزاد بیگ قاسمی ، مولانا سعد قاسمی ، مفتی عبدالباسط قاسمی ، مفتی محمد احمد قاسمی(مہتمم مدرسہ فرقانیہ گوونڈی)، مولانا غفران ساجد قاسمی (چیف ایڈیٹر بصیرت آن لائن)، مولانا خان افسر قاسمی(ایڈیٹر ملی بصیرت )، مفتی طہ بھوئیرا (قاضی اندھیری ) ، مولانا اختر صاحب (مدینۃ العلم تھانے)، مولانا زاہد خان قاسمی (جامعہ عربیہ چیتا کیمپ) ، مولانا وکیل مظاہری اور مولانا آدم لندن موجود تھے۔ مقرر خصوصی مولانا سلمان بجنوری صاحب کی دعا پر سہ روزہ اجلاس کا اختتام عمل میں آیا۔
0 Comments