Latest News

ناصر، جنیدکو انصاف ملے گا؟

تحریر: قاسم سید "ایڈیٹر ان چیف روزنامہ خبریں

کیا انصاف مانگنا جرم ہے ،کیا جمہوری اور قانونی حدود میں رہ کر احتجاج بھی اب قانون شکنی کے دائرے میں آتا ہے ،کیا ہم یہ مان لیں کہ انصاف اور بنیادی حقوق کے تحت پرامن جدوجہد کے دروازے مسلمانوں اور دیگر کمزور طبقات پر بند کردیے گیے ہیں کیونکہ یہ سمجھانے کے لیے لگاتار طاقتور اشارے دیے گیے اور ہم سمجھ کر بھی نہیں سمجھنا چاہتے۔
کچھ تازہ ترین مثالیں ہیں ان پر غور کریں ۔ جیسے بلقیس بانو کیس میں ‘سنسکاری’ مجرموں کوسزا پوری کیے بغیر ان کے ‘اچھے سلوک’ کی بنا پر آزاد کردیاگیا اور اس فیصلہ کے خلاف بلقیس کی پٹیشن خارج،جبکہ گودھرا مجرموں کو سزاۓ موت اور سزاپو ری کرانے پرعدالت میں اسی گجرات سرکار کا اصرار۔ عمر خالد کو بہن کی شادی میں شرکت کے لیے محض چند دنوں کی ضمانت پر متعدد شرطیں، دوسری طرف ریپ اور قتل جیسے سنگین جرم کے مرتکب رام رحیم کو باربار پیرول،سنگت اور گانوں کی ریکارڈنگ کی چھوٹ۔مسلمانوں کے جینوسایڈ ،ان کے سرکاٹنے ،ان کی عورتوں کا ریپ کرنےکی کھلے عام دھمکیوں، مبینہ دھرم سنسدوں میں کی جانے والی ‘اپیلوں’ پر خاموشی،کوئ ایف ائی ار تک نہیں سپریم کورٹ کی سختی کے باوجود تفتیش کی دھیمی رفتار،وہیں ناصر اور جنید کے سفاکانہ قتل پر احتجاج ،دھرنے کی ‘گستاخی’کا ارتکاب کرنے والوں کو نوٹس،اورمظاہرین پر ایکشن،600لوگوں پر ایف آئی آحالانکہ انہوں نے توڑپھوڑ کی اور نہ آگ لگائی،نہ ہی قانون کو ہاتھ میں لیا۔ امرتسر میں ہزاروں کا ہجوم جو تلواروں وغیرہ سے مسلح تھا تھانے پر قبضہ کرلیتا ہے،پولیس سے ‘,لوہا’لیتا ہے ۔کئی پولیس اہلکار زخمی ہوگیے،پھرکیا ہوا، ان کا مطالبہ مانا گیا گرفتار ملزم رہا کیااور کسی کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں۔کہیں کوئی چوں تک نہیں!
جنید, ناصر کے قاتلوں کی نشاندہی کے باوجود وہ آزاد ہیں،مونو مانیسر کا نام ان آٹھ ملزموں میں نہیں جن کی تصویریں عام کی گئیں،اسے غیر قانونی اسلحہ رکھنے ان کی سرعام نمایش کرنے ،تشدد کے ویڈیو وائرل کا حق ہے آپ کو صداۓ احتجاج کی بھی اجازت نہیں ۔ تھانے لاۓگیے ادھ مرے جنید،ناصر کو پولیسٔ ان ہی ملزموں کو سونپ دیتی ہے اور ناحق بےقصور مسلمانوں کو گھر سے اٹھالیتی ہے ۔کہیں کوئی کارروائی نہیں
اس کا ایک اور پہلو ہے عام مسلمان ہر طرح کے دباؤ کے بعد بھی قانون کے دائرے میں رہ کر سڑکوں پر نکلتا ہے ،دھرنے دیتا ہے،۔مقدموں کے اندیشوں کے باوجود اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ظلم پر احتجاج کرتا ہے
۔اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کیا واقعی ہم بے وزن ہوگیے ہیں؟ کیا واقعی بیس کروڑ کی آبادی،اس کی ترجمان بڑی بڑی مذہبی نیم مذہبی ،سیاسی،نیم سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں موجود منتخب مسلم نمائندے صرف اپنی طاقت کے مظاہرے اور اپنی بالادستی وبرتری ثابت کرنے تک ہی سمٹے ہوۓ ہیں ،کیا ان کی یہ حیثیت نہیں رہی کہ وہ اتنادباو بناسکیں کہ مظلوموں کو انصاف مل جاۓ؟کیا صرف تعزیت کی رسم ادائیگی ،اخبارات میں فوٹو،خبرکی اشاعت کافی ہے؟کیا یہ سارے مل کربھی جنید ،ناصر جیسے معاملوں میں انصاف دلانے کی اہلیت و طاقت نہیں رکھتے؟کیا ملت جو اپنا پیٹ کاٹ کر مادی وسائل کا انبار مہیا کراتی ہے اسے یہ حق نہیں کہ جب اس پر افتاد آۓ تو آپ سردھڑ کی بازی لگادیں ؟کیا جیلیں صرف مظلوموں سے آباد ہوں ان پر آپ کا حق نہیں؟ آپ کے ہاتھ صرف چومنے کے لیے بناۓ گیے ہیں, ظالموں کی گردن پکڑنے کی ہمت سکت نہیں رہی یا مقدموں،جیلوں ،ای ڈی،سی بی آئی سے ڈر لگتا ہے؟ ؟گھٹ کے مرجاوں یہ مرضی میرے صیاد کی ہے؟،حیرت ہے کہ اتنے سنگین حالات اور چیلنجوں کے باوجود مشترکہ کوششوں اور اور مشترکہ جدوجہد کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔اہر کوئی صرف اپنا رپورٹ کارڈ درست کرنے میں لگا ہے ۔اکیلا چلو کی پالیسی جاری ہے۔سسٹم نے یہ کمزور نس پکڑلی ہے ۔اس لیے جو چاہتاہے کر گزرتاہے وہ ہمارے انتباہوں کے کھوکھلے پن سے واقف ہے ۔اسے معلوم ہے کہ گڑگڑانے،فریاد کرنے والے صرف پھڑ پھڑا سکتے ہیں،ظاہر ہےلاشیں اٹھانے کاسلسلہ ‘رسموں’ سے ختم ہونے والا نہیں۔جمہوری معاشرہ میں جب تک پشت پر اجتماعی طاقت نہ ہو سسٹم سنتا نہیں،انصاف مانگنے والا سیاسی طور پر کمزور ہو تو یہ انصاف مانگنا صاحب اقتدار کے یہاں جرم، گستاخی اور قابل دست اندازی قانون کہلاتا ہے۔ سوچنے کا مقام ہے کہ جنید,یاناصر خدانخواستہ ہماری امیدوں کےکسی مرکز کا فرد ہو تب بھی کیا یہی رویہ ہوگا کیونکہ آگ مسلک،فرقہ،جماعت،حضرت،مدظلہ العالی،دامت برکاتہم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر بھڑکنے اور لگ جانے کی اجازت نہیں لیتی جنید ،ناصرکو انصاف نہیں دلاسکے تو یہ گناہ یقیناَ ہمارے سرہوگا۔ ہم ان کے مجرم ٹھہریں گے!جوخدمات کررہے ہیں اس سے کسی کافر کو بھی انکار نہیں،لیکن پہلو خاں،افرازل،تبریز،وارث ،اورجنیدناصر جیسے واقعات کا سلسلہ بند ہونے کا راستہ نکالنا ہی پڑے گا۔یہ تسلسل، جدوجہد،قربانی اور عزیمت کا راستہ ہے رخصت کا نہیں،جنید ناصراپنے سوالات کے ساتھ ہمارے اقدام کے منتظر ہیں۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر