Latest News

شب برأت میں خود کو گناہوں سے نجات دلائیں: مفتی اظہار مکرم قاسمی، آتش بازی، موٹرسائیکل سے اسٹنٹ نہ کرنے اورقانون کے دائرے میں رہنے کی نصیحت۔

کانپور: شعبان کی پندرہویں شب ”شب برأت“ کہلاتی ہے،یعنی وہ رات جس میں مخلوق کو گناہوں سے بری کردیاجاتاہے۔برأت کا معنی ہے نجات، چھٹکارا۔دس صحابہ کرامؓ سے اس رات کے متعلق احادیث منقول ہیں۔شب برأت مغفرت کی رات ہے اور اس رات کو کھیل تماشوں میں گزارنے کے بجائے نیک کاموں میں گزارنا چاہئے۔ ان خیالات کا اظہار مسجد نور پٹکاپور میں مجلس تحفظ ختم نبوت کانپور کے ناظم اعلیٰ مولانا مفتی اظہار مکرم قاسمی امام وخطیب مسجد نور پٹکاپور نے کیا انہوں نے کہا کہ یہ بات کس قدر افسوسناک ہے کہ جب اللہ کی طرف سے اپنے بندوں کی بخشش کی جارہی ہو، بندے اس کی جانب سے غافل ہوکر لہو ولعب میں مصروف ہوں۔
 مفتی اظہار مکرم قاسمی نے درد بھرے لہجے میں کہا کہ زمانہ حال میں شب برأت میں جو رسوم جڑی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ نوجوان لڑکے پوری رات ایک قبرستان سے دوسرے قبرستان اور دوسرے سے تیسرے قبرستان گھومتے رہتے ہیں۔ اس رات میں موٹر سائیکلوں پوری رات چکر لگاتے ہیں۔ بیشتر شہروں میں عجیب و غریب صورتحال رہتی ہے اور کھلے عام ٹریفک ضابطوں کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اور قانون شکن عناضر اس رات میں اس قدر آزاد نظر آتے ہیں کہ ان کے سامنے پولیس اور انتظامیہ بھی بے بس دکھائی دیتی ہے۔ کچھ لوگ آتشبازی بھی کریت ہیں، یہ تمام چیزیں شب برأت کی حرمت ہی نہیں بلکہ اسلام کے مزاج کے بھی خلاف ہے۔ اس رات سینکڑوں بائیکرس کو اسٹنٹ کرتے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔ ایک ایک بائک پر چار چار جوانوں کی سواری عام بات ہوتی ہے، جن کے سر پر ہیلمٹ نہیں ہوتے۔ ظاہر ہے کہ بغیر ہیلمٹ کے گاڑی چلانا اور اسٹنٹ کرنا،دونوں خود کو خطرے میں ڈالنے کے ہم معنیٰ ہیں اور خود کشی کے مترادف ہیں جن کی اسلام میں اجازت نہیں ہے۔ ملکی قانون کی دھجیاں اڑانا بھی اسلام کی نظر میں کوئی پسندیدہ کام نہیں ہے۔ اس کے بعد تمام ٹی وی چینل شب برأت کے دوسرے دن یہ خبر دکھاتے ہیں کہ رات بھر بائکرس نے شہر میں ہنگامہ مچایا اور پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ اسی کے ساتھ اسلامی ٹوپی سر پر ڈالے ہوئے، مسلم نوجوانوں کی ویزول دکھائے جاتے ہیں جو مسلمان اور اسلام دونون کے تصویر کو مسخ کرنے والی بات ہوتی ہے مگر اس کے لئے ذمہ دار بہرحال ہمارے نوجوان ہی ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ مبارک رات جو عبادت کی رات ہے، جو تلاوت قرآن کی رات ہے، جو قبولیت دعاء کی رات ہے، جس میں تجلیات الٰہی کا نزول ہوتا ہے اور جس میں اللہ کی رحمت بندوں کی جانب متوجہ ہوتی ہے، اس میں دعاء و درود سے غافل ہوکر فضول کاموں میں وقت گذارنا کس قدر محرومی اور بد قسمتی کی بات ہے؟ہمیں چاہئے کہ ہم آج کی رات کو عبادتوں میں لگائیں اور خوب عبادتیں کرکے اپنے اللہ کو راضی کرلیں۔
کو راضی کرلیں۔

شب برأت عبادت کی رات، گناہ کے کاموں سے بچیں:قاری عبدالمعید چودھری۔
کانپور:۔ مسلمانوں کا اپنا مزاج ہے اور وہ مذہب کو بھی اپنے مزاج کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ وہ ہرجگہ سیر وتفریح کا پہلو نکال لیتے ہیں اور بعض جگہوں پر ایسے ایسے خرافات کرنے لگتے ہیں کہ توبہ بھلی۔ شب برأت کا لفظی مفہوم ہے ”چھٹکارے کی رات“ یعنی گناہوں سے چھٹکارے کی رات، جہنم کے عذاب سے چھٹکارے کی رات مگر مسلمانوں کاایک طبقہ اسے اسلامی اخلاق سے چھٹکارے کی رات کے طور پر مناتا ہے۔مذکورہ خیالات کا اظہار جمعیۃ علماء وسط اترپردیش کے ناظم تنظیم قاری عبدالمعید چودھری نے کرتے ہوئے کہا کہ علماء کرام کا ایک بڑا طبقہ شب برأت کی فضیلت کا قائل ہے اور اسے عبادت کی رات کے طور پر پیش کرتا ہے۔
شب برأت کو احادیث میں مغفرت کی رات کے طور پر یاد کیا گیا ہے۔ اس لئے اس رات میں خرافات کے بجائے عبادت وریاضت اور دعا ودرود میں وقت لگاناکرنا چاہئے۔اس سلسلے میں کئی احادیث موجود ہیں۔ ایک حدیث متعدد کتابوں میں وارد ہیکہ رات میں عبادت کرنا اور دن کے وقت روزہ رکھنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک دوسری حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتو رات کوقیام کرواوردن کوروزہ رکھو کیونکہ غروب آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت آسمان دنیا پرنازل ہوجاتی ہے اوراللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ”ہے کوئی مغفرت کاطلب کرنے والاکہ میں اسے بخش دوں“ ”ہے کوئی رزق مانگنے والاکہ میں اس کورزق دوں؟“”ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں“یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتارہتاہے۔قاری عبدالمعید چودھری نے آخر میں مسلمانوں سے درد مندانہ اپیل کرتے ہوئے کہا کہ خدارا اس مقدس رات کی قدر کریں اور آج برادران کا ایک بڑا تہوار ہولی بھی ہے اس لحاظ ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھیں۔


Post a Comment

0 Comments

خاص خبر