Latest News

عتیق_احمد_کا_قتل: ہندوستان میں عدالتی بالادستی کو چیلینج۔ انتقام انصاف نہیں ہوتا ہے۔

✍: سمیع اللہ خان
چونکانے والی خبر آرہی ہے کہ الٰہ آباد میں عتیق احمد اور اس کے بھائی اشرف احمد کا پولیس کسٹڈی کے دوران قتل کردیا گیا ہے، عتیق احمد اور اس کے بھائی اشرف کو میڈیکل چیک اپ کے لیے لےجاتے ہوئے یہ سنسنی خیز اور سفّاک مجرمانہ واردات انجام دی گئی ہے، دو دن پہلے ہی عتیق کے بیٹے کا یوپی پولیس نے انکاؤنٹر کیا تھا جوکہ ہنوز سوالات کے گھیرے میں ہے، 
 یہ قاتلانہ واردات اترپردیش پولیس کے کردار پر بھی سوالیہ نشان ہے، عتیق احمد کو سابرمتی جیل سے جسطرح یوگی آدتیہ ناتھ نے یوپی پولیس کی تحویل میں لیا تھا اس کو دیکھ کر صاف تھا کہ یوگی سرکار کی نیت کبھی بھی ان ملزمین کو عدالتی مراحل سے گزارنے کی نہیں بلکہ انتقامی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی تھی، 
 دو دن پہلے ہی عتیق احمد کے بیٹے کا اترپردیش پولیس نے مشکوک انداز میں انکاؤنٹر کردیا تھا عتیق کے بیٹے کے انکاؤنٹر پر افسوسناک طورپر گودی میڈیا اور بھاجپائی ہندوتوا سماج نے جس طرح کا جشن منایا تھا غالباً اسی سے حوصلہ پاکر عتیق احمد اور اس کے بھائی کو قتل کردیا گیا تاکہ مذکورہ سماج کی نفسیات کو مزید تسکین پہنچائی جائے، 
 عتیق احمد کا مجرمانہ ریکارڈ سب کے سامنے ہے اور اسی لیے ہم اس کی حمایت نہیں کرتے ہیں لیکن ہمارا ہمیشہ یہ ماننا رہا ہے کہ مجرم خواہ کوئی بھی ہو اسے تفتیش اور اصولی آئینی مراحل سے گزار کر عدالت کے ذریعے انہیں قرار واقعی سزا تک پہنچانا چاہیے، اور پھر عتیق احمد کا جہاں مجرمانہ ریکارڈ تھا وہیں یہ بھی حقیقت ہی ہے کہ وہ اسی ہندوستان کی صوبائی اسمبلی و ملکی پارلیمنٹ کا رکن بھی رہا ہے، ایسے شخص کو کچھ لوگ پولیس کسٹڈی کے درمیان کیسے قتل کرسکتے ہیں؟ کیا یہ مجرمانہ قتل پولیس کے کردار کو بھی مجروح نہیں کرتاہے؟ کیا یہ قاتلانہ واردات یوگی سرکار کو کٹہرے میں نہیں لاتی ہے؟ پہلے عتیق کے بیٹے کا انکاؤنٹر پھر عتیق اور اس کے بھائی کا قتل وہ بھی پولیس تحویل کے درمیان کیا یہ واردات اس ذہنیت کا پتانہیں دیتی ہیں کہ اگر ملزمین و مجرمین مسلم نام والے ہوں گے تو انہیں سڑک پر گولی ماردی جائےگی؟ کیا ایسی واردات ہندوستان میں آئینی ٹرائل اور عدالتی نظامِ انصاف کا مذاق نہیں اڑاتی ہیں؟  
سرکاریں اگر سڑکوں پر ٹھوک دو کلچر کو بڑھاوا دینے لگ جائیں تو ان میں اور کرائے دار غنڈوں کی گینگ میں کیا فرق رہ جاتاہے؟ 
یوگی سرکار جس ذہنیت کا مظاہرہ کررہی ہے وہ اترپردیش ہی نہیں ملک کے لیے بھی ٹھیک نہیں ہے یہ آمرانہ انتقامی مزاج سوسائٹی میں انارکی کو تیزی سے بڑھاوا دیتا ہے،
 ہمیں عتیق احمد کی زندگی کے نشیب و فراز سے بالکل اتفاق نہیں تھا نہ ہے، لیکن جس طرح اسے موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے ہم اس سے بھی سخت اختلاف کرتے ہیں، اس کےحق میں عدالتی نظام کےذریعے قرار واقعی منصفانہ فیصلہ ہونا چاہیے تھا، اس کے بیٹے کا جس طرح انکاؤنٹر کیا گیا وہ بھی غلط تھا، یہ ساری کارروائیاں انتقامی ہیں اور انتقام کبھی بھی انصاف نہیں کہلاتا ہے، ریاستی انتقام انارکی اور لاقانونیت کو پروان چڑھاتا ہے قانونی بالادستی کا مذاق اڑاتا ہے، یوگی سرکار نہایت ہی متکبرانہ انداز میں اترپردیش میں عدالتی بالادستی کو چیلنج کرکے خود ہی جج اور عدالت بنی ہوئی ہے عدالتوں کو چاہیے کہ وہ ان قاتلانہ وارداتوں کا ازخود نوٹس لیں اور یوگی سرکار کو کٹہرے میں کھڑا کریں۔

samiullahkhanofficial97@gmail.com

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر