Latest News

رام نومی تشدد، بہار شریف کا سو سالہ قدیم مدرسہ عزیزیہ جل کر راکھ، قرآن کریم کے نسخے، دینی کتابیں، نوادرات اور فرنیچر بھی جل گیا، لاکھوں کا نقصان۔

بہار شریف: بہار میں رام نومی کے موقعے پر پرتشدد واقعہ ہوا جس میں وزیر اعلی نتیش کمار کے آبائی ضلع نالندہ کے بہار شریف میں جانی و مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں سب سے زیادہ نقصان مدرسہ عزیزیہ مرارپور کو ہوا ہے۔ مدرسہ کو تقریباً ساٹھ لاکھ روپے کی مالیت کا نقصانات ہوا ہے۔ مدرسہ کے پرنسپل مولانا شاکر کہتے ہیں کہ اس قدیم مدرسے کا مکمل طور پر جل جانا انتہائی افسوسناک ہے کیونکہ اس آگ میں سو سال پرانی پوری تاریخ جل کر راکھ ہوگئی ہے۔ حال، مستقبل کو اندھیرے میں غرقاب ہونے کے ساتھ اکابرین اور ماضی کی یادیں بھی مٹ گئی ہیں۔ مدرسہ عزیزیہ سنہ 1910 میں قائم ہوا اور تاحال ملک و ریاست کی ترقی خوشحالی کے لیے لاتعداد افراد کو بے پناہ علمی صلاحیتوں کا مالک بناکر انہیں نامور اور معروف ہونے میں نمایاں تعاون پیش کیا۔ تاہم آج اسی مضبوط علمی قلعہ کو فسادیوں اور شرپسندوں نے تباہ وبرباد کردیا۔ اس مدرسے کو نہ صرف جلایا گیا بلکہ طالب علموں کو روشن مستقبل کی جانب بڑھنے سے بھی روکا گیا ہے۔بہار شریف کے مرارپور محلہ میں سنہ 1910 میں مدرسہ عزیزیہ کی بنیاد رکھی گئی ، اس مدرسہ کی بانی ایک خاتون ہیں جنہیں مرحومہ بی بی صغری کے نام سے جاناجاتاہے ۔بی بی صغری مرحومہ نے اپنے شوہر عبدالعزیز کی یاد میں اس مدرسہ کی بنیاد رکھوائی تھی۔ بی بی صغریٰ مرحومہ وہ خاتون ہیں بہار میں آج تک ان جیسی کوئی دوسری خاتون عطیہ ' ڈونر ' کے طور پر نہیں سامنے آئی ہیں۔ بتایاجاتا ہے کہ مرحومہ صغری نے سنہ 1896 میں اپنی تمام جائیداد جسکی اس وقت کی سالانہ آمدنی ڈیڑھ لاکھ کے قریب تھی اس کو انہوں نے تعلیم اور سماجی کاموں کے لیے وقف کردیا تھا آج یہ جائیداد بہار سنی وقف بورڈ پٹنہ کے ماتحت ہے تاہم اسکا نظام آج بھی صغری وقف اسٹیٹ بہار شریف نالندہ ضلع سے چلتاہے ۔صغریٰ وقف اسٹیٹ بہار کے وقف بڑے اسٹیٹوں میں ایک ہے مدرسہ عزیزیہ صغریٰ ہائی اسکول اور صغریٰ کالج جیسے تعلیمی ادارے صغریٰ وقف اسٹیٹ کی نگرانی میں جاری ہیں لیکن ان میں سب سے پہلے مدرسہ عزیزیہ وجود میں آیا مدرسہ 3 ایکڑ اراضی پر واقع ہے اسکی لائبریری دو منزلہ تھی یہاں درسی کتابوں کے سمیت علم فن منطق فلسفہ ، سائنسی طبی کتابوں سمیت کئی مخطوطات تھے، یہاں سے ہزاروں طلبہ نے تعلیم حاصل کرملک وملت کانام روشن کیا ہے ،خصوصاً مولانا مسعود جو سعودی عربیہ میں مقیم ہیں اور سینکڑوں کتابوں کے مصنف ہیں۔ مولا نظام الدین مولافخرالحسن صدر مدرس دارلعلوم دیوبند سمیت کئی جید اور معروف عالم دین ہیں جنہوں نے یہاں سے تعلیم حاصل کی ایسا نہیں ہے کہ یہاں سے صرف عالم ہی بنکر نکلے بلکہ یہاں تعلیم یافتہ کئی ایسے بھی ہیں بہار حکومت سے لیکر محکمہ تعلیم ہیلتھ انجینئرنگ میں بڑے عہدے پر فائز ہوئے جن میں ایک ڈاکٹر اےاین این کمال سبکدوش رجسٹرار ویرکنور سنگھ یونیورسٹی ، طیب ابدالی ایچ اوڈی مگدھ یونیورسٹی شعبہ اردو سمیت کئی نام قابل ذکر ہیں لیکن ایسے تعلیمی ادارے کو بھی شرپسندوں نے بخشا نہیں ہے۔مدرسہ عزیزیہ ایک ایسا مدرسہ تھا جس کی عمارت اور اس کا پورا ڈھانچہ اسی طرح آج بھی موجود تھا جو ا سکے ابتدائی ایام میں تھا۔ یہاں ایک سے بڑھ کر ایک نایاب چیزیں تھیں جو اسوقت بی بی صغریٰ مرحومہ نے بنوایا تھا یا پھر اپنے گھرکی زینت وآرائش کے لیے تھے اسے مدرسہ میں منتقل کردیا تھا لیکن رام نومی کے موقع پر برپا ہوئے فساد نے سب کچھ تباہ و برباد کر دیا شرپسندوں نے ایسی آگ بھڑکائی کہ اس کے شعلے میں سبھی بیش قیمتی اور نایاب چیزیں جل کر خاکستر ہو گئیںمولانا شاکر قاسمی نے بتایا کہ یہاں مدرسہ میں عالیشان دو لائبریری تھی جس میں 18 الماریوں میں کتابیں مخطوطات وغیرہ تھیں جبکہ 8 الماریوں فائلز مدرسہ کے اساتذہ طلبہ وطالبات کی تفصیلات کچھ نادر قلمی نسخے اور کچھ پرانی یادگار رکھے ہوئے تھے جو سب جل کر خاک ہوگئے۔مولانا شاکر قاسمی نے بتایا کہ چونکہ رمضان کا موقع تھا سبھی اپنے گھروں کو چلے گئے تھے ، مدرسہ اور شاہی مسجد جس جگہ پر واقع ہے وہ مچھلی مارکیٹ کا علاقہ کہلاتا ہے یہاں مدرسہ سے مسلم آبادی کچھ دوری پر واقع ہے جسکی وجہ سے مدرسہ اور مسجد میں کوئی نہیں تھا ، مدرسہ عزیزیہ تھانہ سے محض پانچ سو میٹر دوری پر واقع ہے رام نومی کے دن یہاں مسلم علاقوں میں بریکیٹنگ کی ہوئی تھی باہر روڈ پر مسلمان میں صرف دو تین افراد وہی موجود تھے جو پیس کمیٹی میں شامل تھے اچانک ایسا حملہ ہوا کہ کوئی سمجھ نہیں پایا ، پولیس تماشائی بنی رہی اگر وقت رہتے ہوئے کاروائی ہوتی ، آگ بجھانے کی کوشش ہوتی تو اتنا بڑا نقصان نہیں ہوتا انہوں نے کہاکہ جس طرح سے حملہ ہوا ہے اس سے واضح ہے کہ حملے کی سازش پہلے سے طے تھی صرف واقعہ کوانجام دیا گیا ہے۔مدرسہ عزیزیہ ایک ایسامدرسہ ہے جو اپنی املاک اور مدرسہ بورڈ میں رجسٹرڈ ہونے کی وجہ سے عوامی چندے سے کبھی مطلب نہیں رکھا یعنی کہ عوامی چندہ نہیں ہوا ، مدرسہ کے نقصانات کا اندازہ ایک کروڈ روپے کے قریب بتایا جاتاہےلیکن ابتدائی طور پر اندازہ لگائے جانے کے بعد درج ایف آئی آر میں 60لاکھ روپے کا نقصان بتایا گیا ہے مدرسہ کے صدرمدرس مولاناشاکر قاسمی نے مقامی تھانہ میں شکایت درج کرائی ہے جس میں 60لاکھ روپے کے نقصان کی بات کہی گئی ہے ایف آئی آر نامزد اور نامعلو کے خلاف ہوئی ہے مدرسہ کی دس فٹ موٹی دیوار اور چھت کوبھی نقصان ہوا ہے جبکہ فرنیچر پوری طرح سے خاکستر ہےمدرسہ عزیزیہ وقف بورڈ اور بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈدونوں سے براہ راست جڑا ہوا ہے ، صغری وقف اسٹیٹ سنی وقف بورڈ پٹنہ کے ماتحت ہے جبکہ مدرسہ عزیزیہ مدرسہ بورڈ سے ملحق ہے لیکن اتنے بڑے واقعہ کے بعد دونوں بورڈ کے حکام نے خیریت بھی دریافت نہیں کی ہے۔مدرسہ کے پرنسپل نے کہاکہ افسوسناک یہ ہے کہ دونوں اداروں کے ذمہ دران نے آج تک ان سے کوئی رابطہ کرکے خیریت دریافت نہیں کیا جبکہ یہ نقصان قوم کے اثاثہ کے ساتھ ان سرکاری اداروں کا بھی ہے اتنی بے حسی سے مایوسی ہاتھ لگی ہے مولاناشاکر نے کہاکہ تاحال بہار شریف میں انٹرنیٹ کی خدمات معطل ہے ابھی بھی دفعہ 144نافذ ہے۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر