مافیا کہے جانے والے عتیق احمد اور اس کے بھائی اشرف احمد کے پولس کسٹدی میں قتل کئے جانے پر ایک مرتبہ پھر پولس اور سرکار سوالوں کے گھیرے میں ہے اور عدلیہ کے اختیارات پر بحث جاری ہے جو ایک جمہوری نظام اور صحت مند معاشرہ کیلئے ضروری بھی ہے۔ اس ساری بحث میں یہ سوال بھی اہم ہیکہ ملزم یا مجرم کو سزا دینے کا اختیار ہمارے قانون اور ہماری عدلیہ کو ہے یا کسی سرکار اور پولس کو ؟
بڑا سوال یہ ہیکہ عتیق جیسے مافیا سماج پیدا کرتا ہے یا ہمارا سسٹم اور سرکاریں؟ ہماری سیاسی جماعتیں جب اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو اس مسئلہ پر ان کا مﺅقف کچھ اور ہوتا ہے اور زبان کچھ اور، سرکار میں ہوتے ہیں اپنی بات کو صحیح ٹہرانے اور مخالفت میں اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کیلئے تمام حربے استعمال کرتی ہیں اور طاقت کے استعمال سے بھی ان کو گریز نہیں ہوتا عتیق اور اس کے بھائی کے قتل پربھی یہی نظارہ دیکھنے کو مل رہا ہے ، حکمراں جماعت ا ور اپوزیشن جماعتیں عتیق کے قتل پرسیاسی روٹیاں سینک رہی ہیں میڈیا کا بڑا حصّہ سرکار کے گن گان کررہا ہے اور سرکار بھی بظاہر عتیق کے پولس کسٹڈی میں قتل کئے جا نے سے پلّہ جھاڑ رہی ہے اور کہنے کو اس نے ضابطہ پورا کرنے کیلئے جانچ بٹھا دی ہے ۔افسوس یہ کہ حکمراں جماعت عتیق کو مسلمانوں کا ہیرو ثابت کرنے پر تلی ہے جبکہ حقیقت یہ ہیکہ عتیق کے ظلم اور زیادتیوں کا شکار سب سے زیادہ مسلمان ہوئے ہیں اس کے ہاتھوں سب سے پہلا قتل بھی پریاگ راج کے مافیا جو ایک کونسلر بھی تھا چاند بابا کا ہوا تھا۔ ایک غیر جابندار میڈیا رپورٹ کے مطابق ممبر اسمبلی راجیو اگروال اور قتل کے گواہ امیش پاک کے قتل کے علاوہ اس کے ذریعہ اکثریتی طبقہ کا کوئی تیسرا فرد شاید اس بربریت کا شکار نہیں ہوا جتنے مسلمان ۔
مافیا ڈان کہے جانے والے عتیق کو گر چہ عدالت نے عمر قید کی سزا سنادی تھی اس کے بھائی پر بھی سنگین الزامات تھے ،عتیق بہت پہلے اپنی جان کو خطرہ بتا چکا تھا اور اس نے اپنے وکیل یا کسی معتمد کو تین مہر بند لفافے سونپے تھے اور کہا تھا کہ اگر اسکو قتل کردیا جا ئے تو یہ لفافے تین الگ الگ شخصیات تک ارسال کر دئے جا ئیں کہا جاتا ہیکہ ان میں سے ایک لفافہ یو پی کے وزیرِ اعلیٰ یو گی آدتیہ ناتھ کے نام بھی بتا یا جا تا ہے ۔خبریں تو یہ بھی فضا میں تیر رہی ہیں کہ عتیق نے اپنے کسی معتمد سے یہ بھی کہا تھا کہ پولس کے ایک اعلیٰ افسر نے جیل سے نکال کر ا س کو جان سے مارنیکی دھمکی دے رکھی ہے ۔بلاخر عتیق کا خدشہ سچ ثابت ہوا ،عتیق اور اس کے بھائی کو پولس کسٹڈی میں اس وقت گولیوں سے بھون ڈالا گیا جب پولس دونوں کو میڈیکل کیلئے لائی تھی اس بھیانک واردات کو انجام دینے والے تینوں نو عمر قاتل میڈیا کے بھیس میں آئے تھے جن کے پاس میڈیا آئی ڈی اور کیمرہ بھی تھا اور تینوں نے واردات میں بیش قیمتی پسٹل استعمال کئے تھے اور قتل کے بعد جے شری رام کے نعرے بھی لگائے تھے شاید یہ نعرہ کا ہی کمال تھا کہ ہماری بہادر پولس نے گولی تو دور قاتلوں کے سر پر ڈنڈا تک نہیں مارا اور ان کی جان بخش دی اورتینوں نے خود کو پولس کے حوالہ کردیا ۔ایک بات کا اور ذکر کرتے چلیں ابھی تک تو پولس کی وردی پہن کر ڈاکو لٹیرے ڈاکے ڈالتے تھے اب میڈیا کا چولا پہن کر قلم کی جگہ ہتھیار چلانےکا راستہ بھی عتیق اور اشرف کے قتل نے کھولدیا ہے کون جا نے جس کے ہاتھ میں میڈیاآئی ڈی اور کیمرا ہے کب میڈیا آ ئی ڈی کی جگہ ہاتھ میں پسٹل آجا ئے اور کس کی جان لے لیجائے۔ گرچہ اس واردات کی جانچ بٹھا دی گئی ہے لیکن یہ جانچ عتیق اور اشرف کے قتل کے پیچھے کی سازش کا پردہ فاش کر پائیگی سوال یہ ہے؟ کہا جا رہا ہیکہ تینوں قاتلوں میں ایک قاتل کی سیلفی بجرنگ دل کے ایک لیڈر کیساتھ ہے ۔بجرنگ دل نے ان قاتلوں سے اپنا پلّہ جھاڑ لیا لیکن ہندو مہا سبھا حمایت میں آگئی ہے ۔خبر یہ بھی ہیکہ کہ ان تینوںٹرینڈ شوٹروں کو موقعہ پر موجود رہکر دو ہینڈلر کمان بھی دے رہے تھے انمیں ایک ہینڈلر مقامی تھا یقینا یہ سب ًجانچ کا حصّہ رہیگا جانچ کتنی ایمانداری اور غیر جانبداری سے کیجا ئیگی یہ تو نہیں کہا جا سکتا حیرت ہیکہ پو لس نے عدالت سے تینوں قاتلوں کا پولس ریمانڈنہیں مانگا عدالت نے تینوں کو جوڈیشیل ریمانڈ پر بھیجدیا ۔ان تینوں نے وادات کے بعد قتل کا جو مقصد بتا یا وہ گلے نہیں اترتا اگر مان لیں کہ وہ تینوں عتیق کو مار کر عتیق کیطرح مافیا ڈان بننا چاہتے ہیں ،عتیق نے بھی محض 17سال کی عمر بد نامِ زمانہ گینگسٹر چاند بابا کومار کر اس کی جگہ لی تھی ۔ غور کر نیکی با ت یہ ہیکہ عمر قید کا سزا یافتہ ڈھلتی عمر کا مافیا عتیق سماج کیلئے زیادہ خطر ناک تھا یا گرم خون والے یہ تین نئے مافیا سماج کیلئے زیادہ خطرناک ہو نگے ۔ یہ جو کچھ ہو رہا ہے اس سے ملک کے جوڈیشری سسٹم کے وجود اور اس کی بقاءپر بھی سوال کھڑے ہو رہے ہیں۔ حیرت ہیکہ آئین کا حلف لیکر آئینی منصب پر بیٹھنے والے وزیرِ اعلیٰ جب اسمبلی اجلاس میں یہ فرمان جا ری کرتے ہیں کہ مافیا کو مٹی میں ملادیں گے تو پھر عدلیہ کی کیا ضرورت باقی رہتی ہے۔ لیکن برا ہو اس سیاست اور سرکاروں کا جومافیا اور غنڈوں کی پرورش بھی کرتے ہیں اور ان پر دھرم ،مذہب اورذات کا ٹیک بھی لگا دیتی ہیں ،اس معاملہ کسی سیاسی جماعت یا کسی سرکار کا دامن پاک نہیں ۔تانگہ چلانے والا 17سال کے عتیق کو آخر کس نے مافیا بنا یااور کیسے مافیا سے لیڈر بننے والا عتیق 45سال کی سیاسی زندگی میں 5مرتبہ ایم ایل اے منتخب ہوا اور ایک مرتبہ پارلیمینٹ کی سیڑھیاں بھی چڑھ گیا اور قانون توڑنے والا قانون ساز اداروں میں بیٹھ کر قانون کا منھ چڑھا تا رہا ۔ایک عتیق ہی کیا ملک بھر میں ہزاروں مافیا سیاست اور سرکاروں کی سرپرستی میں پرورش پا رہے ہیں ایم پی اور ایم ایل اے کا چو لا پہنے ہوئے ہیں جن پر سنگین جرائم کے ارتکاب کے الزامات ہیں اور ضمانتوں پر جیل سے باہر ہیں اور قانون ساز اداروں پر بھی قبضہ کئے ہوئے پولس کی ڈھیلی ڈھالی چارج شیٹ اور سرکاروں کی پالیسیاں ان کی ڈھال بنی رہتی ہیں ۔ ایسے مافیا ہر پارٹی میں ہیں جن کے ذریعہ پیسہ بھی وصولا جا تا ہے اور ووٹ بھی بٹورے جا تے ہیں جس پارٹی کی سرکار ہوتی ہے وہ پارٹی مخالف پارٹی کے مافیا کو یا تو اپنے میں ملا لیتی ہے جونہیں مانتا اس کو مٹی میں ملا دیا جا تا ہے یا ٹھوک دیا جا تا ہے عتیق جو پہلے ہی عمر قید کا سزا یافتہ مجرم تھا اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے ۔
ماضی میں مایا وتی کی سرکار نے ایک مافیا کے گھر کے تالاب میں انسانی ڈھانچوں کے ملنے کا سنسنی خیز انکشاف تک کر ڈالا تھا لیکن وہ مافیا آج بھی راجہ بنا بیٹھا ہے اس کا بال بھی بانکا نہیں ہو ا آخر آج وہ کس کی سرپرستی میں ہے ۔کانگریس کی یوپی سرکارکا وزیر ہری شنکر تیواری بی جے پی کی کلیان سنگھ سرکار میں بھی وزیر تھا جو ایک مافیا تھا آج بھی ایسے درجنوں مافیا ہیں جنکو سیاسی جماعتوں اور سرکار کی سر پرستی حاصل ہے ۔ عتیق جیسے مافیا کا تعلق بھی ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں سے رہا اوربی جے پی سرکار میں شامل رہے اپنا دل سے بھی تھا۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ عتیق کے قتل پر غیر ملکی میڈیا نے یہ نہیں لکھا کہ بھارت کا ایک مافیا مارا گیا اس نے لکھا کہ بھارت کے ایک ایم پی اور 5بار کا ایک ایم ایل اے پولس کسٹڈی میں قتل کردیا گیا اور تو اور بحرین کی پارلیمینٹ میں بھی یہ سوال اٹھ گیا اگر کسی لیڈر کے دیارِ غیر میں بیان سے ملک بد نام ہوا جو غدّاری کے مترادف تھا تو عتیق کے پولس کسٹڈی میں قتل اور ا س پر جشن سے کیا دنیا میں ملک کی بدنامی نہیں ہورہی ہے آخر جشن کس بات کا؟ ایک مافیا مارا گیا اس کی جگہ تین اور مافیا پیدا ہو گئے یا اس لئے کہ مرنے والے مافیا کا نام عتیق تھا؟ آخر یہ جشن کی بات ہیکہ تشویش کی کہ ہماری سیاست کس سمت جا رہی ہے اور ہماری سرکاریں یہ کیسا کھیل کھیل رہی ہیں۔
0 Comments