جس وقت یہ سطریں تحریر کیجا رہی تھیں وزیرِ اعظم نریندر مودی نئی پارلیمینٹ کا افتتاح کرچکے تھے ۔افتتاح کیلئے بی جے پی نے ویر ساورکر کے یومِ پیدائش کی تاریخ کا خاص طور پر انتخاب کیا اور ہون و دگر مذہبی روایات کیساتھ افتتاح کی رسم انجام دی گئی اور ایک سیکولر ملک کی نئی پارلیمینٹ کا افتتا ح کیا گیا ۔بی جے پی سرکار اور وزیرِ اعظم نے کانگریس سمیت اپوزیشن کی 21جماعتوں کے اس مطالبہ کو ٹھکرا دیا کہ آئینِ ہند کی دفعہ 79کے تحت چونکہ صدرِ جمہوریہ ہی ایوانِ بالا ( راجیہ سبھا) اور ایوانِ زیریں ( لوک سبھا) کا سربراہ ہوتا ہے اس لئے پارلیمینٹ کی نئی عمارت کا افتتاح موجودہ صدر مرمو سے کرایا جا ئے جو کہ نہ صرف خاتون ہیں بلک شیڈول ٹرائب سے بھی تعلق رکھتی ہیںاگر وزیرِ اعظم خود اس کا افتتاح کریں گے تو یہ نہ صرف نا پسندیدہ اور صدرِ جمہوریہ کے منصب کی توہین ہے بلکہ آئین کی خلاف ورزی بھی ہے۔ صدرِ جمہوریہ کے ہاتھوں افتتاح کا مطالبہ کرنے والی اپوزیشن جماعتوں میں کا نگریس کے علاوہ ڈی ایم کے،عام آدمی پارٹی، تر نمول کانگریس، نیشنل کانگریس پارٹی ،جنتا دل یو ،راشٹریہ جنتا دل ،لوکدل، شیو سینا ( ادھو ٹھاکرے)سماجوادی پارٹی ،سی پی آئی ،سی پی ایم ،نیشنل کانفرنس ،جھار کھنڈ مکتی مورچہ،کیرل کانگریس ( منی) انڈین نیشنل مسلم لیگ وغیرہ نمایاں ہیں ۔ افتتاح کو لیکر جو تنازع کھڑا ہوا تھا وہ سرخیوں چھا یا رہا لیکن وزیرِ اعظم اور ان کی پارٹی بی جے پی نے اس کی پرواہ نہیں کی اور حسبِ عادت جس کو صحیح سمجھا اور مانا وہی کیا۔ بی جے پی کا دعویٰ ہیکہ اسکے اور وزیرِ اعظم کے اس قدم کی تائید دگر 24جماعتوں نے بھی کی ہے اور تائید کرنے والوں میں تلنگانہ کے وزیرِ اعلیٰ کے سی راﺅ اور بہوجن سماج پارٹی کی سپریمومایاوتی بھی شامل ہیں۔
ہر چند کہ بی جے پی کیخلاف کانگریس کے استثنیٰ کیساتھ کے سی راﺅ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کیلئے کو شاں تھے وہ کانگریس کو تلنگانہ میں اپنی جماعت کی بقاءاور وجود کیلئے خطرہ سمجھتے ہیں اس لئے انہوں نے خود کو اپوزیشن جماعتوں کے مطالبہ سے الگ رکھا لیکن بی ایس پی سپریمو مایا وتی کی تائید پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے بی جے پی جب جب کسی مشکل یا کسی امتحان میں پھنستی ہے مایاوتی نے ہمیشہ کبھی کھل کر اور کبھی پس پردہ بی جے پی کی مدد کی ہے وہ بی جے پی کے اس احسان کو کبھی نہیں بھولی ہیں جب بی جے پی کی مدد سے ان کے سر پر وزیرِ اعلیٰ کا تاج رکھا گیا تھا اب جبکہ اپوزیشن کی تمام بڑی جماعتیں نئی پارلیمینٹ کا افتتاح صدرِ جمہوریہ سے کرائے جا نیکا مطالبہ کررہی تھیں ما یا وتی نے اپوزیشن جماعتوں کو زور کا جھٹکا آہستہ سے دیا ہے ۔بی ایس پی، ایس سی/ایس ٹی کو اپنے نام پیٹینٹ کرائے جا نیکا دعویٰ کرتی ہے لیکن ایس ٹی طبقہ سے تعلق رکھنے والی خاتون کے ہاتھوں جب نئی پارلیمینٹ کاسوال آیا تو انہوں نے اس کی پرواہ نہیں کی اور وزیرِ اعظم اور بی جے پی کے مﺅقف اور قدم کی تائید کا اعلان کردیا اور یہ اشارہ بھی دیدیا کہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں ان کا اور ان کی پارٹی بی ایس پی کا کیا رخ رہیگا۔
بی ایس پی پر جب بی جے پی کی B' ' کا الزام لگتا ہے تو بی ایس پی سپریمو مایا وتی بھڑک اٹھتی ہیںلیکن ان کے سیاسی طرزِ عمل سے یہ الزام ہمیشہ سے ان پر چسپاں ہے ۔2022کے اسمبلی انتخابات میں بھی بی ایس پی پر بی جے پی کو فائدہ پہنچا نے کے الزامات لگے تھے اور بی ایس پی کے حصّہ میںصرف ایک سیٹ آئی تھی لیکن ہار کا ٹھیکرا مایا وتی نے حسبِ عادت مسلمانوں کے سر پھو ڑا تھا اگر بی ایس پی سنجیدگی سے الیکشن لڑتی تو اس کا کاڈر ووٹ بی جے پی کے کھاتہ میں نہیں جا تا اور دوبارہ بی جے پی کی سرکار یو پی میں نہ بنتی ۔اس سے پہلے بھی اسی طرح کے الزامات بی ایس پی ر لگتے رہے ہیں۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں غیر معروف اور نو سیکھئے 11مسلم امیدواروں کو بی ایس پی نے ٹکٹ دئے لیکن 17میئر کے امیدواروں میں اسکا ایک بھی امیدوار کا میاب نہیں ہوا بلکہ گذشتہ بلدیا تی انتخابات میں میرٹھ اور علیگڑھ کی جن دو سیٹوں پر بی ایس پی کا قبضہ تھا وہ بھی ختم ہو گیا۔بلدیاتی انتخابات میں شرمناک شکست کا اندازہ اس سے لگا یا جا سکتا ہیکہ بی ایس پی تیسرے نمبر کی پارٹی بن کر رہ گئی جبکہ سماجوادی پارٹی نے میئر کی کوئی سیٹ چاہے نہ جیتی ہو لیکن وہ دوسرے نمبر پر رہی نگر پالیکا ا ور نگر پنچائتوں کے چیئر مین اور ممبران کی تعداد بی ایس پی سے زیادہ رہی ۔ بلدیا تی انتخابات میں شکستِ فاش کے بعد بی ایس پی سپریمو نے لکھﺅمیں کاورڈینیٹرس اور اضلاع کے صدور کی میٹنگ میں آئندہ بھی اکیلا چلو کا ہی اعلان کیا ہے اور مایاوتی نے اپوزیشن اتحاد کی ان تمام کو ششوں سے خود کو علیحدہ رکھا ہے جو الگ الگ سطحوں پر کیجا رہی ہیں مانا کہ ابھی تک یہ کوششیں لا حاصل دکھا ئی دے رہی ہیں لیکن ابھی بھی امید باقی ہے اور اپوزیشن اتحاد ممکن ہے ۔کر ناٹک میں کا نگریس کی شاندار اور تاریخ ساز کامیابی نے جہاں اپوزیشن اتحاد کے امکانات کو روشن کیا ہے بی جے پی اور وزیرِ اعظم نریندر مودی کے اس طلسم کو بھی توڑا ہے کہ یہ دونوں نا قابلِ تسخیر ہیں اور ان کو شکست نہیں دیجا سکتی ۔کانگریس کی اس کامیابی نے یہ بھی واضح کردیا کہ اگر اپوزیشن جماعتیں بی جے پی کی ہندتو اکی پچ میں نہ پھنسے اور سیکولر اور جمہوری اقدار پر میدان میں اتریں تو وہ بی جے پی کی مذہبی انتہا پسندی اور نفرت کی سیاست کو دھول چٹاسکتی ہیں۔پارلیمانی انتخابات میں یو پی کو اوّلیت حاصل ہے کہا یہ جاتا رہا ہیکہ دلّی کے اقتدار کا راستہ یو پی سے ہو کر جا تا ہے اگر بی جے پی کے مقابلہ اپوزیشن جماعتوں کا کوئی اتحاد جسمیں کانگریس ہی نہیں بی ایس پی بھی شامل ہو تو کوئی عجب نہیں کہ یو پی سے بی جے پی کا صفا یا ہو جا ئے کانگریس سے یہ امید کیجا تی ہیکہ وہ ان ریاستوں میں جہاں وہ کمزور ہے دوسری پارٹیوں کے امیدوار وں کی مدد کرے تو یو پی میں سماجوادی اور بی ایس پی دونوں کو فا ئدہ پہنچ سکتا ہے سماجوادی پارٹی نے تو نئی پارلیمینٹ کے افتتاح کے مسئلہ پر اپنا وزن اپوزیشن جماعتوں کے پلڑے میں ہی ڈالا ہے لیکن مایاوتی مخالف سمت چل پڑی ہیں اور کھل کر انہوںنے بی جے پی کے مﺅقف اور قدم کی تائید کی ہے اور ایک مرتبہ پھر انہوں نے بی جے پی سے اپنی دوستی نبھا ئی ہے جس سے صاف اندازہ ہو تا ہیکہ اگر یو پی میں بی جے پی مخالف کوئی اپوزیشن اتحادبنتا بھی ہے تو مایا وتی اس اتحاد سے خود کو دور رکھیں گی اور ممکن ہیکہ پسِ پردہ یا ظاہر ہ 2024 میںبی ایس پی کا کوئی سمجھوتہ بی جے پی کیساتھ ہو جا ئے ۔
قابلِ زکر ہیکہ ڈاکٹر بھیم راﺅ امیبیڈ کر کے بعد کانشی رام اس حقیقت کو جان گئے تھے کہ سماج کے کمزور طبقات دلت ،مسلم اور دگر پسماندہ طبقات کے اتحاد کے بل پر ان کی آواز کو ایوانِ اقتدار تک پہنچایا جا سکتا ہے ۔کانشی رام نے اس مقصد کیلئے پہلے 1971میں ایک تنظیم بنائی، دوسری تنظیم 1981میں بنا ئی جسکا نام ڈی ایس 4یعنی دلت سوشت سنگھرش سمیتی رکھا اور 198میںبہو جن سماج پارٹی کی بنیا د رکھی ۔مایاوتی 4مرتبہ وزیرِ اعلیٰ بنیںآخری مرتبہ انہوں نے دلت مسلم گٹھ جوڑ کی بنیاد پرمکمل اکثریت کیساتھ 2007میں سرکار بنائی تھی کانشی رام کی موت کے بعد مایا وتی پر الزام ہیکہ انہوں نے کانشی رام کی وراثت کو سنبھال کر نہیں رکھا اور تلک ترازو اور تلوار کیساتھ قابلِ اعتراض نعرہ دینے والی بی ایس پی نے ہاتھی نہیں گنیش ہے کے نعرہ کے سہارے کانشی رام سے الگ اپنی راہ بنا ئی اور کانشی رام کے اصول طاق پر رکھدئے اسی لئے مایاوتی پر مفاد پرستی کے الزامات لگنے لگے ، دلت مسلم و دگر پسماندہ طبقات کے اتحاد کا شیرازہ بکھرگیا اور مایاوتی کا سحر ٹوٹنے لگا اور مایا وتی کی قربتیں بی جے پی سے بڑھتی گئیں نتیجہ سامنے ہے چار مرتبہ اقتدار میں رہنے والی بی ایس پی کا اسمبلی میں اب صرف ایک ایم ایل اے ہے۔ایسی حالت میں بی جے پی کیساتھ بی ایس پی کی بڑھتی قربتیں اس کی رہی سہی ساکھ کو بھی ختم کردیں گی اور اسکا کاڈر ووٹ دلت ووٹ اس کے ہاتھ سے پھسل کربی جے پی کے کھاتہ میں چلا جا ئیگا۔
0 Comments