Latest News

نہ سیدھی ہونے والی دُم : شکیل رشید۔

یہ کون لوگ ہیں؟ کہاں سے آتے ہیں؟ کیوں انہیں اپنی عزت محبوب نہیں ہے؟ کیوں یہ خود ذلیل و خوارہوتے اور اپنے ساتھ پوری مسلم قوم کو ذلیل کرواتے ہیں؟ یہ سوال ، اُن دو ویڈیو کِلپوں کو ، جو سوشل میڈیا پر بڑی تیزی سے وائرل ہوئی ہیں ، دیکھنے کے بعد سے ، ذہن میں گھوم رہے ہیں ۔ ایک ویڈیو کلپ میں گالیوں کی بوچھار میں شعیب جامعی کے چہرے پر صبوحی خان کا تھپڑ دیکھا ، دیکھ کر یوں لگا جیسے یہ تھپڑ ساری مسلم قوم کے چہرے پر لگایا گیا ہو ! دوسری ویڈیو کِلِپ میں صبوحی خان کے منھ سے نکلنے والی گالیاں سنیں ، یہ گالیاں صرف مولوی ساجد رشیدی اور شعیب جامعی کے ہی لیے نہیں تھیں ، یہ گالیاں پوری قوم کے لیے تھیں ، صبوحی خان نے لفظ ’ باپوں ‘ کا استعمال کیا تھا ، اس لفظ سے اس کی منشاء سامنے آ گئی ہے ، یہی کہ ’ تم لوگوں سے جو بڑے مولوی مولانا ہیں ، اُن کی بھی پٹائی کی جائے گی ۔‘ ان دونوں ہی ویڈیو کِلپوں کا افسوس ناک پہلو یہ ہےکہ تھپڑ کھانے والا بھی مسلمان اور تھپڑ مارنے والی اور دونوں کو گالیاں دینے والی بھی مسلمان ! یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا ہے ، پہلے بھی ٹی وی کے ڈیبیٹ میں ہاتھا پائی اور گالی گلوچ کے واقعات ہو چکے ہیں ، پہلے بھی لمبی لمبی داڑھی رکھے ، سر پر ٹوپی پہنے ، اور مذہبی لبادوں میں ملبوس نورانی چہرے ذلیل کیے گئے ہیں ، بلکہ روزانہ ہی ذلیل کیے جاتے ہیں ۔ پھر بھی یہ ٹی وی ڈیبیٹ میں جانے سے باز نہیں آتے ہیں ! جیسے کسی کو منشیات کی لت لگ جائے ویسے ہی انہیں ٹی وی پر ذلیل ہونے کی لت لگ چکی ہے ۔ شاید میں غلط کہہ گیا ، ذلیل ہونے کو انہوں نے پیشہ بنالیا ہے ۔ جو مولوی جتنا ذلیل ہو گا اُسے اتنی ہی بڑی رقم ملے گی ۔ کم از کم ملنے والی رقم پانچ ہزار روپیے ہے ۔ سنتے ہیں کہ یہ پیشہ ور مولوی اور مفکر ( بلکہ مپھکر ) ٹی وی اسٹوڈیو کے سامنے قطار در قطار کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں ، ایک ڈیبیٹ سے نکلتے ہیں تو دوسرے مباحثے میں شامل ہوجاتے ہیں ، اِن میں سے کچھ مسلمان ہوکر مسلمانوں کو ہی گالیاں دیتے ہیں اور کچھ دوسرے مسلمان ان گالیاں دینے والوں کو گالیاں دیتے ہیں ۔ یہ ذلالت روز کا معمول ہے ۔ امن چوپڑا ، امیش دیوگن ، انجنا اوم کشیپ اور ارنب مکھرجی جیسے زہریلے اینکر انہیں یومیہ زہر اور نفرت کے پرچار کےلیے ، ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت استعمال کرتے ہیں ۔ جی یہ استعمال ہی کیے جا رہے ہیں ، انہوں نے اپنا مقصد ہی استعمال ہونا بنا لیا ہے ۔ انہیں ٹی وی اینکر ڈانتے رہتے ہیں ، ڈیبیٹ میں آئے مخالف نظریے کے مہمان انہیں ذلیل کرتے رہتے ہیں اور صبوحی خان جیسی عورتیں انہیں صلواتیں سناتی اور تھپڑیاتی رہتی ہیں ۔ ان کا استعمال سنگھی نظریات کے پرچار کے واسطے کیا جاتا ہے ، ان سے ڈیبیٹ ہروائی جاتی ہے تاکہ لوگوں کے سامنے فخر سے مخالف نظریات کے ماننے والے کہہ سکیں کہ اسلام کے دھرم گروؤں کے پاس کوئی جواب نہیں ہے ، اس لیے کہ ان کا مذہب ہی جھوٹا ہے ۔ انہیں استعمال کیا جاتا ہے موضوعات کو اُچھالنے کے لیے ، طلاق ثلاثہ کے معاملے میں جیسے استعمال کیا گیا ۔ اب یکساں سول کوڈ اور حلالہ ، لو جہاد ، تبدیلیٔ مذہب کے بہانے نفرت پروسنے اور اسلاموفوبک فلموں کی تشہیر کے لیے ان کا استعمال کیا جا رہا ہے ۔ یہ دو ٹکے پر ایمان بیچنے والے مولوی نما لوگ اُس دُم کی طرح ہیں جو کبھی سیدھی نہیں ہوتی ۔ یہ اگر کہتے ہیں کہ یہ ٹی وی ڈیبیٹ میں مسلمانوں اور اسلام کے دفاع کے لیے جاتے ہیں ، تو یہ جھوٹ بولتے ہیں ، یہ اپنا دفاع تک تو کر نہیں سکتے ! انہیں نہ شریعت کے اصولوں کا پتہ ہے اور نہ ہی عام دُنیا کی معلومات ہے ، یہ ڈیبیٹ کیا کریں گے ! انہیں بار بار منع کیا گیا ہے ، منت سماجت کی گئی ہے کہ ڈیبیٹ میں نہ جائیں ، لیکن جیساکہ اوپر لکھا ہے ، یہ نہ سیدھی ہونے والی دُم کی طرح ہیں ، اِس لیے بہتر ہے کہ انہیں ان کے حال پر ، ذلیل ہونے کے لیے ، چھوڑ دیا جائے ۔ اور یہ طے کر لیا جائے کہ کوئی ایک بھی چوٹی کا معروف عالمِ دین یا دانشور ان ڈیبیٹوں میں حصہ نہیں لے گا ، نہ ہی مسلم قوم ایسے ڈیبیٹ دیکھ کر زہریلے ٹی وی چینلوں کا ٹی پی آر بڑھائے گی ۔ اور ہاں یہ کیا جائے کہ ان ڈیبیٹ کے عادی مولویوں سے پوری قوم دوری بنالے ۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر