نئی دہلی: (یو این آئی اور ایجنسی) ’’آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ، یونیفارم سول کو ڈ کو ملک کے لئے غیر ضروری، ناقابل عمل اور انتہائی نقصان دہ سمجھتا ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ دہ اس غیر ضروری کام میں ملک کے وسائل کا ضیاع کرکے سماج میں انتشار کا سبب نہ بنے‘‘۔ بور ڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے آج یہاں جاری ایک پریس بیان میں کہا کہ ہمارا ملک ایک کثیر مذہبی، کثیر ثقافتی اور کثیر لسانی ملک ہے اور یہی تنوع اس کی خاص پہچان ہے۔ ملک کے دستور سازوں نے اس نزاکت اور خصوصیت کا لحاظ رکھتے ہوئے مذہبی اور ثقافتی آزادی کو بنیادی حقوق کی حیثیت دے کر اسے تحفظ فراہم کیا ہے (دفعہ 25،26)۔ مزید برآں دستور کی دفعات A) 371) اور 371(G) میں شمال مشرقی ریاستوں کے قبائل کو یہ ضمانت دی گئی ہے کہ پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون وضع نہیں کرے گی جو ان کو ان کے فیملی لاز سے محروم کردے۔بور ڈ یہ واضح کردینا بھی ضروری سمجھتا ہے کہ قانون شریعت، قرآن و سنت سے ماخوذ ہے جس میں مسلمان کسی بھی تبدیلی کے مجاز نہیں ہیں- اسی طرح دوسرے مذہبی و ثقافتی گروہ بھی اپنی روایتی و تہذیبی قدروں کو عزیز رکھتے ہیں - لہذا حکومت یا کسی بیرونی ذریعہ سے پرسنل لاز میں کوئی بھی تبدیلی سماج میں انتشار اور بد امنی کا ہی باعث ہوگی اور کسی بھی معقول حکومت سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی۔جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ ایک دستوری تقاضہ ہے، تو بور ڈ یہ واضح کردینا ضروری سمجھتا ہے کہ دفعہ 44 دستور ہند کے رہنما اصولوں کے باب IV میں درج ہے جس کا نفاذ لازمی نہیں ہے۔جب کہ رہنماء اصولوں کے تحت نشہ پر پابندی اور ایسی کئی ہدایات درج ہیں جو عوام کے مفاد میں ہیں لیکن حکومت کو اس کے نفاذ کی کوئی فکر نہیں ہے، اس کے برعکس مذہبی و ثقافتی آزادی کی حیثیت بنیادی و لازمی حقوق کی ہے۔ یہاں یہ بات بھی کہنا ضروری ہے کہ جو لوگ کسی مذہبی پرسنل لا کی پابندی نہیں کرنا چاہتے ہیں، ان کے لئے ملک میں اسپیشل میرج ایکٹ اور انہیریٹینس ایکٹ ( inheritance act) کی شکل میں پہلے ہی سے ایک اختیاری سول کوڈ موجود ہے۔ لہذا اس صورت میں یونیفارم سول کو ڈ کی پوری بحث ہی غیر ضروری اور فضول ہے۔مسلم پرسنل لا بورڈ مسلمانوں کی تمام دینی و ملی تنظیموں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ لا کمیشن کے سوالنامے کا جواب ضرور دیں اور کمیشن پر یہ واضح کردیں کہ یونیفارم نہ صرف ناقابل عمل ہے بلکہ غیر ضروری اور نقصان دہ بھی ہے اور یہ بھی کہ مسلمان اپنی شریعت کے معاملہ میں کوئی مصالحت اختیار نہیں کرسکتا۔ بورڈ ملک کی تمام مذہبی و ثقافتی اکائیوں، دانشوروں، سول سوسائٹی موومنٹس اور مذہبی رہنماؤں سے بھی اپیل کرتا ہے کہ وہ بھی لا کمیشن کے سوالنامے کا جواب دے کر ملک کو اس لایعنی کام سے باز رکھیں۔ ادھر ممتاز علماء اور مختلف اسلامی تنظیموں کے ذمہ داروں نے کہا ہے کہ یکساں سیول کوڈ(یو سی سی) ہندوستان جیسے ملک میں قابل ِ عمل نہیں ہے جہاں کئی مذہبی اقلیتیں ہیں جن کا اپنا طرزِزندگی ہے۔انہوں نے کہا کہ یکساں سیول کوڈ نہ صرف ایک فرقہ بلکہ سبھی کو متاثر کرے گا۔ اسلامک سنٹر آف انڈیا کے سربراہ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہا کہ گزشتہ کئی سال سے سیاستداں الیکشن سے قبل یکساں سیول کوڈ کا مسئلہ اٹھاتے رہے ہیں۔اس بار بھی یہ مسئلہ الیکشن سے قبل اٹھایا جارہا ہے۔ میں نے ہمیش کہا ہے کہ یکساں سیول کوڈ نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہندوؤں‘ سکھوں‘ عیسائیوں‘ جین مت کے ماننے والوں‘ یہودیوں اور پارسیوں کو بھی متاثر کرے گا۔ ہر فرقہ کا طریقہ ئ عبادت اور شادیوں کے رسم و رواج مختلف ہیں لہٰذا کسی حد تک نجی زندگی مختلف ہے۔اپنے عقیدہ پر چلنے اور اپنے انداز سے جینے کی آزادی دستور ہند نے دی ہے۔ آل انڈیا شیعہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا یعسوب عباس نے کہا کہ لگ بھگ 99 فیصد قوانین ملتے جلتے ہیں لیکن بعض پرسنل لاز ہیں جنہیں جوں کا توں رکھا جانا چاہئے کیونکہ مختلف فرقوں کے لئے یہ مختلف ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان خوبصورت ملک ہے جہاں سبھی مذاہب کے ماننے والے عرصہ سے اپنے پرسنل لاز کے ساتھ پرامن زندگی بسر کررہے ہیں۔ ہر کمیونٹی کو اپنی بقاء کے لئے خود کے پرسنل لاز کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا کسی بھی قسم کی مداخلت گوارہ نہیں ہوگی۔ہم یو سی سی کے خلاف ہیں۔ جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ گزشتہ 1400 سال سے ہندوستان میں مسلمان اپنے پرسنل لاز کے ساتھ جی رہے ہیں۔ اب یکساں سیول کوڈ کی جلدی کیا ہے؟۔ جمعیت ہمارے پرسنل لاز بدلنے کی کسی بھی کوشش کی مخالفت کرے گی۔مولانا نے کہا کہ ہم دیگر برادریوں کے پرسنل لاز کا احترام کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہمارے پرسنل لاز کا بھی احترام کیا جائے۔ سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ حلقہ سنبھل شفیق الرحمن برق نے یو سی سی کے تعلق سے عوام سے پھر رائے لینے کی لا کمیشن کے اقدام کی مخالفت کی اور کہا کہ اس سے ملک میں صرف نفرت پھیلے گی۔صدر آل انڈیا مسلم ویمن پرسنل لا بورڈ شائستہ عنبر نے کہا کہ میں یو سی سی کا بلو پرنٹ دیکھنا چاہوں گی۔ نجی طورپر میں پرسنل لاز میں کسی بھی تبدیلی کے حق میں نہیں ہوں لیکن میں اس کی مخالفت یا حمایت سے قبل خواتین کی رائے لوں گی۔کانگریس قائد ارجن مودھ واڈیا نے آج یکساں سول کوڈ کو فرضی مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ہر انتخاب سے پہلے یہ مسئلہ اٹھاتی ہے۔گجرات سے تعلق رکھنے والے لیڈر مودھ واڈیا نے یہاں نامہ نگاروں کو بتایا کہ وہ لوگ (بی جے پی) ریاست میں اسمبلی انتخابات کے دوران یہ مسئلہ اٹھاتے ہیں، یہ ایک فرضی مسئلہ ہے اس کی وجہ سے عوام کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
0 Comments