Latest News

پٹنہ کے بعد شملہ میں ا پوزیشن اتحاد کا اصل امتحان ہوگا۔

ڈاکٹر شاہد زبیری۔
ملک کے موجودہ سیاسی تناظر میں بی جے پی کی مودی سرکار کی اقتدار سے بیدخلی کیلئے نتیش کمار کی پہل اور انتھک کوششوں کے علاوہ کانگریس کے رویّہ میں لچک اور ایک قومی سطح کی پارٹی ہونے کے باوجود اس کے علاقائی پارٹیوں کیساتھ مل بیٹھنے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کانگریس کو یہ احساس ہیکہ قومی سطح کی پارٹی ہونے کے باوجود وہ تنہا اپنے بل بوتے موجودہ سیاسی حالات میں مودی سرکار کو اقتدار سے بیدخل کرنا تو دور وہ مودی سرکار کو ہلا نہیں سکتی اگر کانگریس کی یہ مجبوری ہیکہ اس نے علاقائی پارٹیوں سے ہاتھ ملایا ہے لیکن اپوزیشن جماعتوں کیلئے بھی یہ ممکن نہیں کہ کانگریس کے بغیر وہ مودی سرکار کا کچھ بگاڑ سکیں دونوں کی مجبوریوں نے اپنے سیاسی حریف کو اقتدار سے ہٹانے کیلئے ایک مشرکہ ایجنڈہ کے تحت اتحاد کا ڈول ڈالا ہے اور پٹنہ کی میٹنگ میں سب نے ایک آوز اور ایک ہی سُر میں جہاں مودی سرکار کو اکھاڑ پھیکے جا نے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور اپنی ان غلطیوں کو سدھارنے کی کوشش کی ہے جووہ اب تک کرتی چلی آرہی ہیں اور اپنی ڈفلی اپنا راگ چھوڑ کر ایک ڈفلی ایک راگ اور ایک سُر میں یہ واضح پیغام دیا ہیکہ وہ اکھٹا رہ کر ملک کی دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کو ختم کرنے ،بیروز گاری دور کرنے ،مذہب دھرم اور ذات پات کے نام پر ہندوستانی سماج کی تقسیم روکنے ،کثیر جہتی ،رنگا رنگ اور متنوع تہذیب کی صدیوں پرانی روایت کی اقدار کو بچا نے ،سنگھ اور بی جے کی ہندو مسلم کے نام پر کھولی گئی نفرت کی دوکان پر تالہ لگا ئے جانے کیلئے 2024میں بی جے پی اور مودی کے رتھ کو دہلی کیطرف جانے سے روکنے کیلئے متحد ہو ئی ہیں ۔ پٹنہ کی میٹنگ اس مشترکہ ایجنڈہ پر ملک کی 15جماعتوں کے 30لیڈران نے اپنی مہر لگا ئی ہے اور میٹنگ کے دوران راہل گاندھی کے اس بیان پر بھی کسی نے انگلی نہیں اٹھائی کہ یہ لڑائی بھارت جوڑو اور سنگھ و بی جے پی کے بھارت توڑو نظریہ کے مابین ہے، اس طرح راہل گاندھی نے دو ٹوک الفاظ میں عوام ہی نہیں اپوزیشن جماعتوں پر بھی یہ واضح کردیا ہیکہ 2024کی لڑائی کا ایجنڈہ کیا ہو گا میٹنگ میں شریک شیو سینا کے ادھو ٹھا کرے نے بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں جتا یا جو کبھی سنگھ اور بی جے پی کی حلیف رہے ہیںاور مہاراشٹر میں بی جے پی کیساتھ مل کر سرکار بنا چکے ہیں ،عام آدمی پارٹی کے سربراہ اور وزیرِ اعلیٰ اروند کیجریوال نے بھی پٹنہ کی میٹنگ میں اپوزیشن اتحاد کے اس ایجنڈہ سے یا راہل گاندھی کے بیان سے اختلاف نہیں کیا ۔راہل گاندھی نے اپنے بیان میں یہ بات بھی صاف کردی کہ اپوزیشن اتحاد کیلئے کانگریس Flexibility(لچک) اختیار کرنے کیلئے آمادہ ہے ۔علاقائی پارٹیوں کیساتھ مل بیٹھنا کانگریس کے لچیلے رویّہ کا ہی اظہار ہے جس سے انکار ممکن نہیں ۔ پٹنہ کی اس میٹنگ میں کیجریوال نے شروع سے آخیر تک شریک رہ کر یہ تو واضح کردیا کہ وہ اپوزیشن کے اس مشترکہ ایجنڈہ سے اختلاف نہیں رکھتے لیکن حیرت ہیکہ اتحاد میں شامل رہنے کیلئے جو شرط انہوں نے رکھی وہ قومی اور ملکی تناظر میں ایک بڑے مقصد کے سامنے بہت چھوٹی اور غیر معقول شرط نظر آتی ہے کیجریوال چاہتے ہیں کہ کانگریس کیجریوال سرکار کے حق میں دئے گئے سپریم کورٹ کے فیصلہ کیخلاف مودی سرکار کے آرڈیننس کی مخالفت میں اس کیساتھ کھڑی ہو ۔کیجریوال میٹنگ کے بعد ہو نے والی مشترکہ پریس کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے انہوں نے علیحدہ سے میڈیا کے سامنے اتحاد میں شامل ہو نے کیلئے اپنی اس شرط کو لازمی قرار دیا ہے ۔کیجیریوال بھول رہے ہیں کہ دہلی میں بیشک اسمبلی انتخابات میں ان کو بی جے کے مقابلہ زیادہ ، 50فیصد ووٹ ملے تھے اور ان کی سرکار بنی تھی لیکن 2019کے پارلیمانی انتخاب میں ان کے ووٹوں کا تناسب بی جے کے مقابلہ گھٹ گیا تھا اور دہلی میں بی جے پی کے سب سے زیادہ امیدوار کا میاب ہوئے تھے ۔علاقائی پارٹیوں کو اس حقیقت کا اعتراف کر نا چا ہئے کہ ان کا دائرہ کسی ایک خاص ریاست تک ہی محدود ہے ۔ کیجریوال کی عام آدمی پارٹی کے استثنیٰ کیساتھ جسکی پنجاب سمیت دو ریاستوں میں سرکاریں ہیں اور گجرات میں ملے ووٹوں کی بنیاد پر اس کو قومی پارٹی کا درجہ حاصل ہے باقی کسی دوسری علاقائی جماعت کو یہ درجہ حاصل نہیں اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے بنگال کی وزیرِ اعلیٰ اور ترنمول کانگریس کی قائد ممتا بنرجی نے بھی اتحاد کیلئے کوئی شرط نہیں رکھی حالانکہ بنگال میں کانگریس کیساتھ ترنمول کا بھی چھتیس کا آنکڑہ ہے ،یوپی کے سابق وزیرِ اعلیٰ اور سماجوادی پارٹی کے قائد اکھلیش سنگھ یادو نے بھی اتحاد میں شامل رہنے کیلئے ا پنی کو ئی شرط میٹنگ میں نہیں رکھی۔ اکھلیش سنگھ نے میٹنگ میں بہت کم وقت میں بڑی بات کہی کہ لالو پرساد ،نتیش کمار ،کشمیر کی محبوبہ مفتی،فاروق عبداللہ عمر عبداللہ اورسیتا رام یچوری جیسے بڑے اور قداور لیڈر بہار کی پٹنہ کی تاریخ ساز زمین پر ملک کی پھر ایک نئی سیاسی تاریخ رقم کررہے ہیں ۔اکھلیش سنگھ کا اشارہ ماضی میں سماجواد (سوشلزم) کے علمبردار ڈاکٹر رام منو ہر لوہیا کے سیاسی تجر بہ کے آغاز اور جے پرکاش نارائن کی 1975کی تحریک کیطرف تھا جس نے اندرا گاندھی کی سرکار کو للکا را تھا جو مودی کی موجودہ سرکار کے مقابلہ ہر لحاظ سے طاقتور تھی ۔میٹنگ کے بعد لکھنﺅ واپس لوٹنے پر اکھلیش سنگھ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ جس طرح کی میٹنگ پٹنہ میں ہو ئی ہے ایسی میٹنگیں ہر ریاست میں ہر ماہ ہونی چا ہئے جب تک انتخابات کی تاریخوں کا اعلان نہیں ہو جا تا ۔مانا جا رہا تھا کہ پٹنہ کی میٹنگ میں کیجریوال، ممتا بنر جی اور تلنگا نہ کے وزیرِ اعلیٰ کے سی راﺅ اور اکھلیش سنگھ شریک نہیں ہوں گے لیکن کے سی راﺅکو چھوڑ کر باقی تینوں لیڈران نے شرکت کی اور اپوزیشن اتحاد کے مشترکہ ایجنڈہ پر مہر لگا ئی ہے ۔واضح رہیکہ کے سی راﺅ کی قیادت میں یہ تینوں لیڈر ایک تیسرا مورچہ قائم کر نا چا ہتے تھے لیکن یہ بیل منڈھے نہیں چڑھی ۔پٹنہ کی میٹنگ میں بی ایس پی سپریمو اوریو پی کی سابق وزیرِ اعلیٰ مایاوتی اور حیدرا باد کی
 AIMIM
 کے سربراہ بیرسٹر اسدالدّین اویسی کو میٹنگ میں مدعو ہی نہیں کیا گیا یہ دونوں لیڈر اپوزیشن اتحاد پر جسطرح کی نکتہ چینی کررہے ہیں وہ بی جے پی کو تقویت دیتا ہے ان دونوں لیڈروں پر الزام ہیکہ یہ دونوںبی جے پی کی زبان بول رہے ہیں ،یوپی کی تیسری اپوزیشن جماعت جینت چودھری کو بھی مدعو کیا گیا تھا لیکن انہوں نے گھر میں ہونے والی تقریب میں شریک رہنے کی مجبوری پر معذرت کر لی تھی ان کے علا و ہ اوڑیشہ کے وزیرِ اعلیٰ نوین پٹنائک کو بھی میٹنگ میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی لیکن وہ شریک نہیں ہوئے۔
پٹنہ کی میٹنگ اس لحاظ سے تو کامیاب رہی کہ15 ریاستوں کی حکمراں اور اپوزیشن جماعتوں نے شرکت کی ۔ مانا جا رہا ہیکہ جن ریاستوں سے یہ لیڈر آتے ہیں اور جن پارٹیوں سے یہ تعلق رکھتے ہیں اگر ان کے اتحاد کی گاڑی پٹری سے نہیں ہٹی تو ان ریاستوں سے مودی سرکار کا انجن پٹری سے اتر سکتا ہے کہا جا تاہیکہ ان ریاستوں سے اتنی سیٹیں اپوزیشن اتحاد کو مل سکتی ہیں جو سنگھ اور بی جے پی کے اقتدار کی پٹری پر دوڑتے انجن کو 2024میں روکنے کیلئے کافی ہوں گی ۔ اسی سبب بی جے پی لیڈروں میں گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ دکھائی پڑرہی ہے ، امت شاہ ،روی شنکر پرساد ،سمرتی ایرانی اور بی جے پی کے قومی لیڈڑ جے پی نڈّا کے بیانا ت اسی کا مظہر ہیں۔
لیکن سوال یہ ہیکہ جس اتحاد کا مظاہرہ 15 اپوزیشن جماعتوں نے پٹنہ کی میٹنگ میں کیا ہے وہ اتحاد 12 جولائی کو شملہ میں ہو نے والی میٹنگ میں بھی دکھا ئی دیگا ؟ اس میٹنگ میں آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہو گا یہ طے ہو نا ہے سب سے بڑا سوال سیٹوں کی تقسیم کو لیکر دوسرا سوال اتحاد کو کوئی مشترکہ نام دئے جانے پر کھڑا ہو گا کیا اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کا کوئی نام رکھا جا ئیگا یا جماعتیں الگ الگ اپے اپنے بینر پر انتخاب لڑیں گی یہ دیکھنا ہے۔ عوام نے خاص طور مسلمان ،دلت اور قبائل کے علاوہ دگر پسماندہ طبقات کے ایک ببڑے حصّہ نے اپوزیشن اتحاد سے بڑی توقع اور امید لگا رکھی ہے ۔بی جے پی پہلے سے ہی ان سب پر بالخصوص مسلما نوں کے پسماندہ طبقات پر ڈورے ڈال رہی ہے ۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو اپوزیشن کا اصل امتحان شملہ کی میٹنگ میں ہوگا۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر