در حقیقت قربانی کا مقصد صرف خون بہانا اور گوشت کاٹنا نہیں بلکہ دل کا خلوص ہے جب اللہ رب العالمین کی طرف سے قربانی کا حکم آگیا تو اب بندہ کو اخلاص کے ساتھ اپنے آپ کو حکم ربی کا پابند بنا دینا ہے یہی ہمارا امتحان ہے اور اس میں ہماری فلاح بھی مضمر ہے۔
ذوالحجہ کا ماہ مبارک چل رہا ہے اس ماہ کی اسلام میں خواص اہمیت ہے تاریخ اسلام کے اہم واقعات اس سے وابستہ ہیں،اس ماہ کی سب سے بڑی،فضیلت یہ ہےکہ اسلام کی بنیادی عبادات میں سے اہم عبادت حج جو ہر صاحب استطاعت پر فرض ہے اسی ماہ کے پانچ ایام میں ادا کئے جاتے ہیں پوری دنیا سے حجاج کرام اس اہم فریضہ کی ادائیگی کے لئے جاتے ہیں اور بیت اللہ شریف اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے آنکھیں ٹھنڈی کرتے ہیں،
نیز اسی ماہ کے تین دنوں میں پورے عالم اسلام میں قربانی کا فریضہ انجام دیا ہے جو سنت ابراہیمی کی عظیم یادگار ہے اور رب العالمین کی طرف سے بندہ کی فرمانبرداری کا امتحان ہے قربانی کا عمل ہر امت میں مقرر کیا گیا؛ البتہ اس کے طریقہ کار میں کچھ فرق رہا ہے ۔اسی میں سے قربانی کی ایک صورت وہ ہے جو اللہ تعالی نے مسلمانوں کو عیدالاضحی کی قربانی کی صورت میں عطا فرمائی ہے جوکہ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یادگار ہے ۔احادیث مبارکہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی بہت زیادہ اہمیت اور فضیلت بیان فرمائی ؛ایک روایت میں ہے کہ صحابہ کرام نے عرض کیا،یا رسول اللہ یہ قربانیاں کیا ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،تمہارے باپ ابراہیم علیہِ السَّلام کی سُنَّت ہیں صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یارسول اللہ اس میں ہمارے لیے کیا ثواب ہے فرمایا، ہربال کے بدلے ایک نیکی ہے،،
دین اسلام قربانیوں سے عبارت ہے در حقیقت قربانی کا مقصد صرف خون بہانا ار گوشت کاٹنا نہیں بلکہ دل کا خلوص ہے جب اللہ رب العالمین کی طرف سے قربانی کا حکم آگیا تو اب بندہ کو اخلاص کے ساتھ اپنے آپ کو حکم ربی کا پابند بنا دینا ہے یہی ہمارا امتحان ہے اور اس میں ہماری فلاح بھی مضمر ہے قرآن مقدس میں اللہ نے اس واقعے کو بیان کیا ہے جسکا ایک ایک سبق پوری انسانیت کے لئے اطاعت و فرماں برداری کا ایسا پیغام ہے جو انسانیت کو اللہ سے قریب کرتا ہے ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ انتہائی غیر معمولی ہے ۔
روئے ارض پر پیش آنے والے واقعات میں یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا، جب اللہ رب العالمین کے حکم پر سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لخت جگر کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار کیا تھا آسمان و زمین حیرت میں تھے، کہ کس طرح سے ایک بوڑھا باپ اپنے لخت جگر کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے والا تھا اس گوشہ جگر کو جسکو بڑھاپے میں بڑی تمناؤں اور آرزوؤں سےمانگا تھا جو بڑھاپے کا سہارا بننے والا تھا جو انتہاء سے زیادہ عزیز تھا اسکی قربانی کا حکم دیا گیا،
قرآن کریم میں اللہ رب العالمین نے اس واقعہ کو بیان فرمایا ہے ،،پھر جب وہ لڑکا ابراہیم کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا تو انہوں نے کہا بیٹے میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں، اب سوچ کر بتاؤ، تمہاری کیا رائے ہے ؟ بیٹے نے کہا ابا جان آپ وہی کیجیے جس کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے،،
انبیاء علیہم السلام کا خواب وحی ہوتا ہے، اس لئے اس خواب کا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم ہوا ہے کہ اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح کر دو ۔ یوں یہ حکم براہ راست کسی فرشتے وغیرہ کے ذریعہ بھی نازل کیا جا سکتا تھا، لیکن خواب میں دکھانے کی حکمت بظاہر یہ تھی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اطاعت شعاری اپنے کمال کے ساتھ ظاہر ہو، خواب کے ذریعہ دیئے ہوئے حکم میں انسانی نفس کے لئے تاویلات کی بڑی گنجائش تھی، لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تاویلات کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے اللہ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کر دیا۔
قربانی اسی عظیم واقعہ کی یادگار ہے جسکو قرآن شریف میں کہا گیا وترکنا علیہ فی الاخرین
احادیث میں بھی اسکی بڑی ترغیب آئی ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قربانی کے دن اللہ کے نزدیک آدمی کا سب سے محبوب عمل خون بہانا ہے، قیامت کے دن قربانی کے جانور اپنی سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئیں گے قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے قبولیت کا درجہ حاصل کر لیتا ہے، اس لیے خوش دلی کے ساتھ قربانی کرو“۔
قربانی ہر اس مسلمان عاقل، بالغ اور مقیم پر واجب ہے جسکی ملکیت میں حاجت اصلیہ سے زائد اور قرض سے فارغ اتنا مال ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو خواہ وہ تجارتی ہو یا نہ ہو اوراس مال پر سال گزرا ہو یا نہ گزرا ہو بہرصورت اس شخص پر قربانی واجب ہے۔ اگر گھر کے تمام افراد صاحب نصاب ہیں توہرایک پر الگ الگ قربانی واجب ہوگی اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ دلجمعی اور خوش دلی سے اس سنت ابراہیمی کو زندہ کریں اور اجروثواب کے مستحق بنیں ۔
0 Comments