مکہ مکرمہ: منیٰ کی عارضی خیمہ بستی مکمل طورپر حجاج سے آباد ہو چکی ہے۔ ۸ ذوالحجہ کو سارا دن حجاج منی میں ہی قیام اور پانچوں وقت کی نمازیں ادا کرنے کے بعد منگل ۹ ذوالحجہ کو عرفات کے لیے روانہ ہوجائیں گے۔ جہاں لاکھوں فرزندان اسلام حج کا رکن اعظم وقوف عرفہ ادا کریں گے۔منیٰ کی عارضی خیمہ بستی میں دنیا بھر سے آنے والے حجاج کے قافلوں کی آمد ۷ ذوالحجہ کی نصف شب کے بعد سے ہی شروع ہو گئی تھی جس کا سلسلہ ۸ ذوالحجہ کی دوپہر تک جاری رہا
وزارت حج کی جانب سے منی میں حجاج کی آمد ورفت کے لیے اس برس غیرمعمولی انتظامات کیے گئے ہیں۔ منیٰ جانے والے تمام راستوں پر سکیورٹی اہلکاروں کی چیک پوسٹیں قائم کی گئی ہیں جہاں کسی کو پرمٹ کے بغیر جانے کی اجازت نہیں۔مشاعر مقدسہ (منی ، مزدلفہ اورعرفات) میں داخل ہونے والی گاڑیوں کے لیے بھی خصوصی پرمٹ جاری کیے گئے ہیں۔ جن گاڑیوں کومنی میں لے جانے کی اجازت دی گئی ہے، ان میں حجاج کی بسوں کے علاوہ سرکاری اداروں کی گاڑیاں، کیٹرنگ سروسز، میڈیا اور حجاج کے لیے ضروری سامان منتقل کرنے والی گاڑیاں شامل ہیں۔مشاعر مقدسہ میں کیے جانے والے انتظامات کے حوالے سے حجاج کرام کا کہنا ہے ’انتہائی شاندار انتظامات کیے گئے ہیں، تھوڑے تھوڑے فاصلے پرسکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے جو ہر قسم کی رہنمائی کر رہے ہیں۔‘بتادیں کہ آج ۱۶۰ ممالک سے لاکھوں کی تعداد میں فریضہ حج ادا کرنے آئے فرزندان توحید حج کا رکن اعظم ’وقوف عرفہ‘ کریں گے ،خطبہ حج سنیں گےاس سال خطبہ حج ڈاکٹرشیخ یوسف بن محمد دیں گے۔ مسجد نمرہ میں ظہر وعصر کی نماز ایک ساتھ ادا کریں گے ۔اور سورج غروب ہونے کے بعد عرفات سے مزدلفہ روانہ ہوں گے ، عشاء کے وقت مغرب اور عشاء کی نماز ایک ساتھ پڑھیں گے، شیطان کو کنکریاں مارنے کے لیے کنکریاں جمع کریں گے، ۱۰ ذی الحجہ کو طلوع آفتاب سے پہلے وقوف مزدلفہ ہوگا ۔ ۱۰ذی الحج کو حجاج پیغمبر ابراہیم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں اور جمرات پہنچ کر شیطان کی تین علامتی شبیہوں کو کنکر مارنے کے بعد خانہ کعبہ پہنچ کر اس کا طواف کرتے ہیں۔یہ تمام مناسک ادا کرنے کے بعد حجاج سفید چادروں پر مشتمل لباس یا احرام اتار کر عام لباس زیب تن کر سکتے ہیں۔ تاہم حجاج کے لیے لازمی ہوتا ہے کہ وہ اس کے بعد کی دو یا تین راتیں منیٰ میں ہی گزاریں۔ اس طرح حج کے مناسک کا اختتام ہوتا ہے۔رواں سال کا حج کرونا وائرس کی وبا کے بعد تعداد کے اعتبار سے حالیہ برسوں میں سب سے بڑا حج قرار دیا جا رہا ہے، جو سخت گرمی کے دوران ادا ہورہا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسلام کے مقدس ترین مقام پر اس دوران ۲۰ لاکھ سے زائد عبادت گزاروں کی میزبانی کی جارہی ہے جن کا تعلق ۱۶۰ ممالک سے ہے۔اتوار کو جب طواف کعبہ کے ساتھ حج کا آغاز ہوا تو اس میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد شریک تھی۔اور جب منیٰ قافلہ پہنچا تو اس وقت گرمی شباب پر تھی ، ۴۲ ڈگری سیلسیس تپش اور چلچلاتی دھوپ میں عازمین کے جوش وجذبے میں کوئی کمی نہیں تھی۔ سعودی عرب کی وزارت حج و عمرہ کے ایک عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’رواں سال ہم تاریخ کے سب سے بڑے حج کا مشاہدہ کریں گے۔ اس سال حاجیوں کی تعداد ۲۵ لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔‘دریں اثناء حکومت نے خطبہ حج کو پوری دنیا کے مسلمانوں تک پہنچانے کے لیے جدید ترین مواصلاتی ڈیجیٹیل سسٹم متعارف کرایا گیا ہے۔ اس نظام کے ذریعے دنیا بھر میں ارد سمیت دنیا کی بیس بڑی زبانوں میں خطبہ حج کا ترجمہ براہ راست نشر کیا جائے گا۔اس ضمن میں صدارت عامہ برائے امور حرمین شریفین نے خطبہ حج کا ترجمہ ۲۰ بین الاقوامی زبانوں میں نشرکیا جائے گا۔
0 Comments