پیرس: فرانس نے سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والی طالبات پر عبایا پہننے پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ واضح رہے کہ مغربی ممالک میں بھی بعض مسلم خواتین اور لڑکیاں ڈھیلی فٹنگ اور تقریبا ًپورے جسم کو ڈھکنے والے لباس (عبایا) کا استعمال کرتی ہیں۔
فرانس کے وزیر تعلیم گیبریل اطال نے اتوار کو دیر رات گئے ایک فرانسیسی ٹیلی وژن چینل ٹی ایف ون پر انٹرویو کے دوران یہ اعلان کیا۔ انہیں رواں برس کے موسم گرما کے اوائل میں ہی وزیر تعلیم کا عہدہ سونپا گیا تھا۔ انٹرویو کے دوران انہوں نے عبایا پر پابندی کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا، ”جب آپ کلاس روم میں جائیں، تو ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ محض طالب علموں کا لباس دیکھ کر آپ ان کے مذہب کی شناخت کر سکیں۔”سن 2004 میں ایک فرانسیسی قانون کے تحت اسکولوں میں ”ایسی تمام علامات یا ایسے لباس پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، جس سے بظاہر مذہبی وابستگی کا اظہار ہوتا ہو۔” اس قانون کا اطلاق مسیحیوں سے تعلق رکھنے والی بڑی صلیبوں، یہودی کی خصوصی ٹوپیوں اور اسلامی ہیڈ اسکارف پر بھی ہوتا ہے۔تاہم گزشتہ نومبر تک عبایا اس فہرست میں شامل نہیں تھا۔ اس وقت وزارت تعلیم نے پابندی سے متعلق ایک نیا سرکلر جاری کیا، جس میں پابندی والے لباسوں میں عبایا کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ ہیڈ ٹیچرز یونین کے رہنما برونو بوبکیوچز نے حکومت کے اس اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”پہلے اس سلسلے میں ہدایات واضح نہیں تھیں، اب وہ ہیں اور ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔”حزب اختلاف کی دائیں بازو کی ریپبلکن پارٹی کے سربراہ ایرک سیوٹو نے بھی اس اعلان کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے کہا کہ ”ہم نے کئی بار اپنے اسکولوں میں عبایا پر پابندی کا مطالبہ کیا۔”تاہم بائیں بازو کی جماعت ‘فرانس انبوڈ پارٹی’ کے رکن کلیمینٹائن اوٹین نے ”لباس کی پولیسنگ” قرار دیتے ہوئے اس فیصلے کی مذمت کی۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ ”غیر آئینی” ہے اور فرانس کی سیکولر اقدار کے بنیادی اصولوں کے خلاف بھی ہے۔اوٹین نے فرانسیسی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ ملک کی تقریباً 50 لاکھ مسلم آبادی کو ”جنونی طور پر مسترد” کر رہی ہے۔
0 Comments