(ذیل کی تحریر لکھنے کے بعد گلزار احمد اعظمی کی نماز جنازہ میں شریک ہونے کے لیے جب میں تلوجہ سے بھنڈی بازار کی کیرولین، پٹھان واڑی پہنچا تو سوگواران کا جم غفیر دیکھ کر کوئی حیرت نہیں ہوئی، مرحوم کے چاہنے والوں کا حلقہ اس قدر وسیع تھا کہ چار پانچ ہزار افراد کا نماز جنازہ میں پہنچنا یقینی تھا۔ جگہ تنگ تھی ورنہ اور زیادہ لوگ شریکِ ہوتے۔ بڑا قبرستان ( مرین لائنز) تک جنازہ کندھوں پر ہی گیا، چاہنے والے جنازے کو کندھا دینے کے لیے جیسے ٹوٹے پڑ رہے تھے۔ زندگی میں بھی الله نے مرحوم کو عزت دی تھی اور موت کے بعد بھی الله نے عزت دی ہے ، یہ ان کی مغفرت کی ایک نشانی ہے)
اتوار ۲۰ ، اگست کی صبح جب فون کی گھنٹی بجی ، مجھے گلزار احمد اعظمی یاد آ گئے ۔ عام طور پر اتوار کو ان کے فون آتے تھے ، اور وہ روزنامہ ’ ممبئی اردو نیوز ‘ میں شائع میرے کالموں اور خبروں پر تبصرہ کرتے تھے ۔ لیکن آج کا فون ان کے بیٹے انور اعظمی کا تھا ۔ انور نے گلوگیر لہجے میں اطلاع دی کہ ابا نہیں رہے ۔ یہ اطلاع کوئی اچانک نہیں تھی ، جب سے گلزار احمد اعظمی بے ہوشی کی حالت میں مسینا اسپتال میں بھرتی ہوئے تھے ، اور ان کی حالت بجائے بہتر ہونے کے بگڑتی جا رہی تھی ، یہ دھڑکا لگا تھا کہ اس بار شاید موت جیت جائے گی ۔ لیکن اس دھڑکے کے باوجود یہ خبر مجھے حیران کر گئی ! ایسا کیسے ہو سکتا ہے ! لیکن ہوا ایسا ہی تھا ۔ اسپتال میں بھرتی ہونے کے چند دنوں بعد ہی انہوں نے اس فانی دنیا سے رشتہ توڑ لیا ، اناللہ واناالیہ راجعون ۔ یہ موت کی گلزار اعظمی پر دائمی فتح تھی ، وہ پہلے بھی کئی دفعہ بیمار ہوئے تھے ، اسپتالوں میں بھرتی رہے ، آپریشن سے بھی گزرے ، لیکن ہر دفعہ موت کو پچھاڑ دیا ۔ لیکن موت کب کسے چھوڑتی ہے ! آج وہ کل ہماری باری ہے ۔ گلزار احمد اعظمی سے میرا تعلق چار دہائیوں پر محیط ہے ۔ یہ چار دہائیاں یادوں سے بھری ہوئی ہیں ۔ میں نے انہیں جمعیتہ علماء مہاراشٹر کے ایک عام رکن کی حیثیت سے بھی کام کرتے ہوئے دیکھا ہے اور مختلف امور کے ذمہ دار کی حیثیت سے بھی ان کے کام میری نظر میں ہیں ۔ مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ جمعیتہ علماء مہاراشٹر کی قانونی امداد کمیٹی کو ایک شکل دینا ، اور اس کمیٹی کے سکریٹری کے طور پر دہشت گردی کے الزامات میں گرفتار کیے گئے مسلم نوجوانوں کی قانونی امداد کرنا ہے ۔ اس کمیٹی کے قیام کی کوشش میں مرحوم نے رات دن ایک کر دیے تھے ۔ کوئی کیس ، چاہے وہ سنگین سے سنگین کیوں نہ ہوتا ، مرحوم لینے سے ، لڑنے سے اور متاثرین کی ہمت بندھانے سے اور کامیابی کے لیے اپنے وکلاء کی ٹیم کو ہر ممکن سہولت فراہم کرنے سے پیچھے نہیں رہتے تھے ۔ انہوں نے اس کام کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا تھا ۔ مجھ سے کئی بار مرحوم نے کہا تھا کہ اُن میں جب تک دم ہے وہ کسی بے قصور کو پھانسی چڑھنے نہیں دیں گے ۔ اور ایسا انہوں نے کر کے دکھایا ۔ ہائی کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک ہر اس ملزم کا ، جسے مجرم مان کر پھانسی اور عمر قید کی سزا سنائی گئی ہوتی ، مقدمہ لڑتے ۔ اب ان مقدمات کا کیا ہوگا ، پتہ نہیں ، لیکن یہ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جو بھی گلزار احمد اعظمی کی جگہ لے گا ، وہ مقدمات تو لڑے گا ، مگر مرحوم سا خلوص اور جذبہ نہیں لا سکے گا ۔ اب وہ نسل عنقا ہو رہی ہے جو مخلص تھی اور جذبہ رکھتی تھی ۔ نوے سال کی عمر میں گلزار احمد اعظمی اس نسل کی شاید آخری کڑی تھے ۔ میرا مرحوم سے ذاتی تعلق تھا ، اس تعلق کی وجہ ان کا خلوص ہی تھا ۔ بہت سی یادیں ہیں ، جمعیتہ علماء ہند کے بٹوارے کی ، تنازعہ کی ، اور جمعیتہ کے ذمہ داران کے ’ رویّے ‘ کی جو انہوں نے مرحوم سے روا رکھا تھا ۔ میں شاہد ہوں ، واقف ہوں کہ جمعیتہ میں وہ کون سے لوگ تھے جن کی نظر میں مرحوم کھٹکا کرتے تھے ۔ لیکن یہ موقعہ غم کا ہے مرحوم کے تعلق سے اپنی یادوں پر کچھ سطریں کسی اور دن لکھوں گا ۔ اب ان کی یادیں ہی رہ گئی ہیں ، اب وہ ایک یاد بن گئے ہیں ۔ الله مرحوم کی مغفرت فرمائے ، انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور ان کے اہل خانہ اور ان بے شمار متاثرین کو ، جن کی قانونی امداد وہ کر رہے تھے صبر جمیل عطا کرے ، آمین ۔
0 Comments