Latest News

گلزاراعظمی کا انتقال:ایک دور کاخاتمہ، جمعیتہ علماء کی تقسیم روکنے کی ہرممکن کوشش کی، میں نے آئی ٹی او صدر دفتر کے باہر پھوٹ پھوٹ کرروتے دیکھا ہے۔ جاوید جمال الدین۔

 گلزار احمد اعظمی صاحب (سکریٹری قانونی امداد کمیٹی جمعیۃعلماء مہاراشٹر )کا مختصر علالت کے بعد اتوار کی صبح حرکت قلب بند ہونے سے انتقال ہوگیا ۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
ایک دور جا خاتمہہ
وہ گزشتہ ہفتہ سےجنوبی ممبئی میں واقع مسینا اسپتال بائیکلہ ،ممبئی میں زیر علاج تھے،صبح جب ان کے انتقال کی خبر کے کسی باوثوق ذرائع سے موصول ہوئی توصدمہ پہنچنا ایک لازمی امر ہے۔کیونکہ ہمارا پچیس تیس سال پرانارشتہ رہا،ویسے تو صحافت میں داخلہ کے ساتھ سلام دعا ہوچکی تھی،لیکن تعلقات استوار ۱۹۹۳ ء سے ہوئے جب میرا تقرر سری کرشنا کمیشن کی کارروائی کی رپورٹنگ کے لیے کیاگیا،میں اور عزیزاعجاز (اُردو ٹائمز)صبح پونے دس بجے جنوبی ممبئی میں بمبئی ہائی کورٹ کے کمرہ نمبر1 میں پہنچ جاتے اور شام تک وہیں رہتے تھے،ہمارے سے پہلے کمرہ عدالت میں چار بزرگ شخصیات موجود رہتی تھیں،ان میں گلزار اعظمی کے ساتھ ساتھ مرحوم اے اے خان ،مرحوم مولانا مستقیم احسن اور مولانا رضی صاحب شامل تھےجوکہ چند سال قبل اللّٰہ کوپیارے ہوگئے۔جبکہ جمعیت کے وکیل ایڈوکیٹ ہارون سولکر اور ان کی ٹیم ایڈوکیٹ سعید احمد کڑواورجونیئر ایڈوکیٹ فاروق سولکر بھی کئی نکات پر تبادلہ خیال کرتے رہتے۔ابھی دوروزقبل ایڈوکیٹ ہارون سولکر صاحب کے صاحبزادہ ایڈوکیٹ مبین سولکر سے ملاقات ہوئی اور ان کے والد کا ذکر ہواتھا۔(ایک عرصے تک وسیم انصاری مرحوم اور ریحانہ بستی والا نے بھی کارروائی کور کی تھی۔)
جمعیت کے ان تینوں بزرگوں کے ساتھ فسادات کے متاثرین یا گواہ بھی موجود رہتے تھے۔
جسٹس بی این سری کرشنا نے جب اپنی رپورٹ پیش کی تو روزنامہ انقلاب مدیر مرحوم ہارون رشید علیگ نے مجھے رپورٹ کااردو ترجمہ کرنے کی ذمہ داری سونپی جوکہ روزنامہ انقلاب میں شائع ہوتااور تقریباً سوقسطیں شائع ہوئیں۔اس درمیان مجھے بمبئی امن کمیٹی کے مرحوم واحدخان اور فضل شاد کی جانب سے ترجمہ کوکتابی شکل دینے کی پیشکش سے پہلے مرحوم گلزار اعظمی صاحب نے جمعیت کے لیے یہ پیشکش کی تھی اور ناگپاڑہ میمنی بلڈنگ میں جناب مولانااسعد مدنی صاحب سے بھی ملاقات ہوئی،لیکن پھر کسی اور کویہ کام سونپ دیاگیاتھا۔
سری کمیشن کی کارروائی کے دوران دوپہر میں وقفہ پر ہم سب باہر نکلتے اور ان بزرگوں کے ساتھ بامبے ہاؤس کی مسجد میں نماز ادا کرتے اور پھر یہ لوگ میرے اور عزیز اعجاز کے میزبان بن جاتے تھے،ہفتے میں تین چار دن تو وڑاہ پاؤ اور ہلکے پھلکے ناشتے کرلیتے ،لیکن دودن بھنڈی بازار کے آتے اور پھرکسی اچھے ہوٹل میں کھانا کھاتے تھے۔
گلزار اعظمی صاحب کے ساتھ تقریباً 35-30 سال کا دور رہا۔قوم وملت کادرد رکھنے والے انسان رہے۔
میرا تبادلہ 2005 میں دہلی ہوگیا چند ہفتے یااکثر میں آئی ٹی او میں جمعیت کے صدر کے مہمان خانہ میں رات گزارتا تھا،دراصل مالیگاوں کے شفیق قاسمی مددگار ثابت ہوئے۔یہیں سے مولانا محمود مدنی صاحب سے تعلقات استوار ہوئے اور ان کے والد اسعد مدنی کی علالت کے دوران اپولو اسپتال میں عیادت کرنے گیا اور انتقال کے وقت بھی وہیں تھا۔
مولانااسعد مدنی صاحب کے انتقال کے بعد ارشد مدنی اور محمود مدنی کے درمیان شدید اختلاف کے نتیجے میں پھوٹ پڑ گئی تو میں نے دونوں گروپوں میں تصادم اور کرسی پھینکنے کے مناظر بھی دیکھے ہیں۔آئی ٹی صدر دفتر کے باہر گلزارصاحب اور مولامستقیم اعظمی کو اس سر پھٹول کے دوران بلک بلک کر روتے ہوئے اور اتحاد و اتفاق کی اپیل کرتے دیکھاہے۔ہم لوگ تقریباً آٹھ دس روز ساتھ رہے اور گلزار اعظمی نے ہمیشہ اتفاق و اتحاد کی ہی باتیں کیں ۔
بقول شکیل رشید گزشتہ پندرہ بیس سال سے ان کا 
مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ جمعیتہ علماء مہاراشٹر کی قانونی امداد کمیٹی کو ایک شکل دینا ، اور اس کمیٹی کے سکریٹری کے طور پر دہشت گردی کے الزامات میں گرفتار کیے گئے مسلم نوجوانوں کی قانونی امداد کرنا ہے ۔ اس کمیٹی کے قیام کی کوشش میں مرحوم نے رات دن ایک کر دیے تھے ۔ کوئی کیس ، چاہے وہ سنگین سے سنگین کیوں نہ ہوتا ، مرحوم لینے سے ، لڑنے سے اور متاثرین کی ہمت بندھانے سے اور کامیابی کے لیے اپنے وکلاء کی ٹیم کو ہر ممکن سہولت فراہم کرنے سے پیچھے نہیں رہتے تھے ۔ ہمیشہ مرحوم نے کہا تھا کہ ان میں جب تک دم ہے وہ کسی بے قصور کو پھانسی چڑھنے نہیں دیں گے ۔ اور ایسا انہوں نے کر کے دکھایا ۔ 
 میں بھی دعا گو ہوں کہ " الله مرحوم گلزار اعظمی صاحب کی مغفرت فرمائے ، انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور ان کے اہل خانہ اور ان بے شمار متاثرین کو ، جن کی قانونی امداد وہ کر رہے تھے صبر جمیل عطا کرے ۔" آمین۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر