نوح :ہریانہ کے نوح ضلع میں شوبھا یاترا کے دوران پتھراؤ کے بعد بھڑکنے والے تشدد کے بلڈوزر کی کارروائی تیزی سے ہورہی تھی کھٹر حکومت نے کئی لوگوں کے گھروں پر بلڈوزر کارروائی کی ہے، جن میں زیادہ تر مسلمانوں کے گھر ہیں۔ اب تک 1200 سے زائد عمارتیں منہدم کی جا چکی ہیں جن میں مکانات اور دکانیں بھی شامل ہیں۔
مسلمانوں کی زیادہ تر جائیدادیں۔
ہندوستان ٹائمز کی ایک زمینی رپورٹ کے مطابق، ضلع نوح میں صرف پانچ دنوں میں 1,208 عمارتیں اور دیگر ڈھانچے، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق مسلم کمیونٹی سے ہے، منہدم کر دیے گئے،جب کئی صحافیوں نے موقع پر پہنچ کر دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ مسمار کی گئی جائیدادوں میں سے زیادہ تر مسلمانوں کی ہیں۔ مزید برآں، 7 اگست کو، پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے بھی اس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے ہریانہ حکومت سے پوچھا کہ کیا بلڈوزر کارروائی کی یک طرفہ نوعیت کو دیکھتے ہوئے حکومت "نسلی صفائی” میں ملوث ہے۔ اس کے بعد یہ کارروائی روک دی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ جو جائیدادیں مسمار کی گئیں وہ نوح، نلہار، پنہانہ، تورو، ننگل مبارک پور، شاہ پور، اگون، ادبار چوک، نلہار روڈ، ترنگا چوک اور نگینہ کے قصبوں اور دیہاتوں میں تھیں۔ جہاں بڑی تعداد میں عمارتیں مسمار کر دی گئیں-مقامی لوگوں کا الزام ہے کہ کئی عمارتیں غیر قانونی نہیں تھیں پھر بھی انہیں گرا دیا گیا۔
ایچ ٹی رپورٹ میں ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کے او ایس ڈی جواہر یادو کا انٹرویو لیا گیا ہے۔ جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ تمام مختلف محکموں کے اہلکار ان عمارتوں کی نشاندہی میں مصروف تھے جنہیں گرانے کی ضرورت تھی۔ اس حوالے سے یکم اگست کو میٹنگ ہوئی اور ہر افسر نے اپنے علاقوں کا ریکارڈ اسکین کیا۔ اس کے بعد تشدد میں ملوث ملزمان کے بیانات کی بنیاد پر مہم شروع کی گئی۔
ہریانہ حکومت کے مطابق مسمار کیے گئے مکانات ان تمام لوگوں کے تھے جنہیں یا تو گرفتار کیا گیا تھا یا غیر قانونی طور پر تعمیر کیے گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اس کارروائی سے قبل قانونی رائے بھی لی گئی تھی۔ اہل خانہ کو نوٹس دینے کے سوال پر او ایس ڈی نے کہا کہ نوٹس 30 جون کو دیا گیا تھا، یعنی یکم اگست کو ہونے والی میٹنگ سے پہلے کیا گیا تھا۔
مسلمانوں نے الزامات لگائے۔
تاہم جن لوگوں کی جائیدادیں گرائی گئی ہیں ان کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے کوئی نوٹس یا اطلاع نہیں دی گئی۔ بلڈوزر براہ راست ان کے گھروں اور دکانوں تک پہنچے اور انہیں مسمار کردیا۔ رپورٹ میں کھیرلی کانکر گاؤں کے لیاقت علی کا ذکر کیا گیا ہے، جو ٹائلوں کے شوروم کے مالک ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے شوروم کو گرانے سے چند منٹ قبل ایک نوٹس چسپاں کیا گیا ۔ لیاقت نے بتایا کہ انہوں نے جائیداد کی رجسٹریشن کرائی ہے اور اسے پچھلے چھ سال سے چلا رہے ہیں۔ اس دوران انتظامیہ نے کبھی کوئی نوٹس نہیں بھیجا۔
اسی طرح نوح ضلع کے کئی دیہاتوں اور قصبوں میں رہنے والے مسلمان بھی یہی کہتے ہیں، ان کا الزام ہے کہ ان کے مکانات اور دکانیں قانونی ہونے کے باوجود منہدم کر دی گئیں۔ رپورٹ میں دی گئی معلومات کے مطابق پورے ہریانہ میں مسلم کمیونٹی کے لوگوں کی جائیدادوں پر سب سے زیادہ کارروائی کی گئی ہے۔ جس کے بارے میں حکام اور حکومت کے اپنے اپنے دلائل ہیں۔
0 Comments