ہر ہندوستانی کے من میں ایک سوال تو ضرور اٹھتا ہوگا کہ کیا گجرات کا یہی ماڈل تھا جس کے نام پر بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس ملک کے عوام سے ووٹ مانگا تھا؟ یہ سوال کس قدر پریشان کن اور خوفناک ہوسکتا ہے، اس کا اندازہ صرف وہی لوگ بہتر ڈھنگ سے کر سکتے ہیں جنہوں نے نفرت کی لپٹوں کو اپنے گرد و پیش اٹھتے دیکھا ہے اور جن کے عزیزوں کی قیمتی زندگیوں سے نفرتی بھیڑ نے خونیں ہوس کی پیاس بجھائی۔ ابھی منی پور کے دل دوز واقعات کا سلسلہ ختم نہیں ہوا تھا کہ محض چند دنوں کے فرق سے قتل و خون کا یہ کلچر جس کو ارباب اقتدار کی پشت پناہی سے اس ملک میں پھیلنے کا موقع ملا ہے، نوح اور ملک کے دوسرے حصوں تک پہنچ گیا۔ ان تمام معاملوں میں سب سے خطرناک اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی بات یہ ہے کہ جمہوری نظام کے تحت جن عملوں کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ مشکلات میں پھنسے شہریوں کو تحفظ فراہم کریں اور انہیں ساحل نجات تک پہنچائیں، انہی لوگوں نے کہیں شہریوں کو خونیں بھیڑ کے حوالہ کر دیا تو کہیں سرکاری گولی سے معصوموں کو چُن چُن کر ختم کر دیا۔ یہ بات اس ملک کے تمام انصاف پسند عوام اور خواص کے لیے لمحۂ فکریہ ہونی چاہیے کہ آخر اس ملک میں قانون اور نظام کی بالادستی کا کیا حشر ہوگیا ہے کہ منی پور کی کوکی خواتین کو پولیس نے خود سے اوباشوں کے حوالہ کردیا اور انہیں موت کے منہ میں جھونک کر چلی گئی۔ ذرا اس منظر کی تصویر کو اپنے ذہن میں تیار کرنے کی کوشش کیجیے کہ جب پولیس کے اہلکار کسی شخص کو ایسے شرپسندوں کے حوالہ کر دیں جو گلی گلی اور گھر گھر ڈھونڈ کر اپنے خیالی دشمن کو قتل کر رہے ہوں اور ان کا گھر تک جلا دے رہے ہوں تواس شخص کی کیا کیفیت ہوگی۔ اس جرم کی شناعت میں اس وقت مزید کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے جب ایسی صورت کسی خاتون کے ساتھ پیش آجائے۔ منی پور میں جس ڈھنگ سے خواتین کو بے آبرو کیا گیا اور ان کے مرد رشتہ داروں کو بھیڑ نے قتل کر دیا، وہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہاں اسٹیٹ مشینری مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ ایسے میں وہاں کے وزیراعلیٰ کو فوری طور پر برخاست کرنا چاہیے تھا تاکہ جن کے زخم گہرے ہیں، انہیں یہ احساس ہو کہ ان کے درد کا درماں بننے کی صلاحیت ابھی بھی اسٹیٹ کے اندر باقی ہے۔ اس کے برعکس مسلسل یہ ہورہا ہے کہ وزیراعظم نے اس مسئلہ پر اپنی کسی دستوری ذمہ داری کو نبھانا ضروری نہیں سمجھا ہے بلکہ اکثریت کے مقابلہ اقلیت کی جو تقسیم کی سیاست گزشتہ تقریباً ایک صدی سے جاری ہے، اس کو مزید شدت کے ساتھ نافذ کرنے کا ارادہ نہ صرف ظاہر کیا جا رہا ہے بلکہ عملی طور پر اس کے نفاذ کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی ذہنیت کا مظاہرہ نوح اور گروگرام میں ہوا اور یہاں بھی پولیس اور انتظامیہ نے اپنی ذمہ داری کو مؤثر انداز میں ادا نہیں کیا۔ ہریانہ پولیس کے اعلیٰ اہلکاروں کو معلوم تھا کہ ماحول کو بگاڑنے اور سماج میں انتشار پیدا کرنے کے لیے مانو مانیسر اور بٹو بجرنگی جیسے عناصر جن کا تعلق بجرنگ دل سے ہے اور جو گئورکشک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، لگاتار کوششیں کر رہے ہیں۔ ان کے ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر ہو رہے تھے جن میں ایک خاص کمیونٹی کے خلاف نہایت غیر مہذب الفاظ اور بھڑکاؤ بیانات کا استعمال کیا جا رہا تھا لیکن اس کے باوجود پولیس نے شوبھا یاترا سے قبل اس فتنہ کے ازالہ کے لیے بالکل کچھ نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر طرف آتش زنی اور قتل و خونریزی کا ماحول چھا گیا۔ ہریانہ پولیس اور انتظامیہ پر یہ سوال بھی کھڑا ہوتا ہے کہ آخر مانو مانیسر جیسے اوباشوں کی مبینہ طور پر میوات کے دو مسلم نوجوانوں کے قتل میں ملوث ہونے کے باوجود اب تک گرفتاری کیوں نہیں عمل میں آئی ہے؟ ویسے اس سوال کا جواب ڈھونڈنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ مانیسر جیسے مجرموں کو گئورکشا کے نام پر سرکار اور پولیس کی حمایت حاصل ہے بلکہ خود پولیس کے ساتھ مل کر معصوموں کو ہراساں کرنے کی ان کی تاریخ موجود ہے۔ مبینہ ملزم مانیسر نے میوات کے مسلم نوجوانوں کا قتل بھی اسی اعتماد کے ساتھ کیا ہوگا کہ قانون اور پولیس سے لے کر اعلیٰ انتظامیہ تک سب اس کی پشت پناہی کے لیے موجود ہیں، اس لیے جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ اس کا یہ خیال غلط بھی نہیں رہا ہوگا کیونکہ اب تک نہ صرف یہ کہ اس کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے بلکہ کھلے عام وہ ملک کو خانہ جنگی کی آگ میں جھونکنے کے عمل کی قیادت کر رہا ہے۔ پولیس کا یہ رویہ اس ملک کی سالمیت کے لیے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے منہ موڑکر پولیس کا عملہ اگر ایک خاص زہریلے نظریہ کو بروئے کار لانے کے لیے کوشاں ہوجائے تو اس ملک کے ہر شہری کو خبردار ہوجانا چاہیے کیونکہ نفرت کی کوئی حد نہیں ہوتی ہے۔ آج اگر وہ منی پور اور ہریانہ کی اقلیتوں کے خلاف سرگرم عمل ہیں اور شر پسند عناصر کی پشت پناہی کر رہے ہیں تو وہ دن دور نہیں جب ہر مسئلہ کو عددی قوت کے زور پر حل کرنے کا راستہ نکالا جائے گا اور اس طرح یہ جنگ علاقہ و خاندان بلکہ پیشہ و پسند کی بنیاد تک پر لڑی جانے لگے گی اور ہر گھر ہر محلہ خانہ جنگی کی آگ میں جھلسنے لگے گا۔ اسی جنگل راج کے خاتمہ کے لیے قوانین اور ادارتی اصولوں کی بنیاد پر سماج کو منظم کرنے کی کوششیں اعلیٰ دماغ اور انسانیت نواز مفکرین و قائدین نے لبرل ڈیموکریسی کا نظام تیار کر کے کی تھیں تاکہ عدل و انصاف کا اٹل معیار قائم ہوجائے اور انسانی سماج کو ترقی کی منازل طے کرنے میں رکاوٹوں اور دقتوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ منی پور میں کئی مہینوں سے جاری قتل و آگ زنی، نوح اور گروگرام میں معصوموں کا خون، ریل کے اندر کانسٹیبل کا مسلمانوں کو چن چن کر مارنا یہ تمام واقعات اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ انصاف اور رواداری پر مبنی لبرل جمہوریت کے نظام کو سخت خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ ہرش مندر اور رام گوہا نے جس طرح سے منی پور کی بدحالی کا موازنہ گجرات 2002 کے مسلم قتل عام سے کیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گجرات کا یہ ماڈل اس ملک کو تباہی کے غار میں پہنچا دے گا۔ اس ملک کو ایسے لیڈران کی ضرورت ہے جو دلِ درد مند کے حامل ہوں اور جو نفرت اور خون کے اس بھنور سے نکالنے کے لیے مخلصانہ جدوجہد کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ الگ الگ ناموں پر سماج کو بانٹنے کا یہ کھیل ہندوستان کے لیے تقسیم ہند کے سانحہ سے زیادہ بھیانک ثابت ہوگا۔ یہ ذمہ داری تمام ہندوستانیوں کی ہے کہ وہ اس ملک کے اتحاد کو بچائیں اور ایسے میڈیا اور لیڈروں سے خود کو اور اپنے بچوں کو دور رکھیں جو ان کے سامنے صرف نفرت اور تقسیم کی کہانی پیش کرکے ان کے دماغ اور سماج کا سکون غارت کرتے ہیں۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
editor.nizami@gmail.com
0 Comments