ڈنمارک کی حکومت کوئی ''ایسا قانونی راستہ‘‘ تلاش کر رہی ہے جس سے حکام سفارت خانوں کے باہر مظاہرین کو مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کو جلانے سے روک سکیں۔
ڈنمارک کے وزیر خارجہ لارس لوکے راسموسن نے اتوار کے روز قومی نشریاتی ادارے ڈی آر کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت قرآن سوزی جیسے واقعات کو روکنے کے لیے مداخلت کی گنجائش کے امکانات تلاش کر رہی ہے۔
یہ خبر ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب کئی مسلم ممالک نے حالیہ ہفتوں میں ڈنمارک اور سویڈن میں ہونے والے مظاہروں کے دوران قرآن سوزی کے واقعات پر سخت احتجاج کیا ہے۔
ڈنمارک اور سویڈن دونوں نے اسلام کی مقدس ترین کتاب کو نذر آتش کرنے کے واقعات پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اس کے باوجود دونوں ملکوں کا کہنا ہے کہ آزادی اظہار کے تحفظ کے قوانین کے خلاف ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ،''مذہبی کتابوں کو جلانا، انتہائی جارحانہ اور لاپرواہی کی حرکتیں ہیں، جن کا ارتکاب چند افراد نے کیا ہے۔ یہ چند افراد ان اقدار کی نمائندگی نہیں کرتے، جن پر ڈنمارک کا معاشرہ قائم ہے۔‘‘
راسموسن نے اس بات پر زور دیا کہ کوئی بھی اقدام ''آزادی اظہار کوآئینی طور پر حاصل تحفظ کے فریم ورک کے اندر اس انداز سے برقرار رکھا جائے گا، جو اس حقیقت کو تبدیل نہیں کرے گا کہ ڈنمارک میں اظہار رائے کی آزادی کا دائرہ بہت وسیع ہے۔‘‘
دریں اثنا سویڈن کے وزیر اعظم اولف کرسٹرسن نے اتوار کے روز کہا کہ انہوں نے ڈنمار کے ہم منصب میٹے فریڈرکسن سے بات چیت کی ہے اور دونوں رہنما اس بات سے متفق ہیں کہ صورت حال خطرناک ہے۔
قرآن کی بے حرمتی کے خلاف مسلم ملکوں میں غم وغصہ اور ناراضگی بالخصوص سویڈن کے لیے پریشان کن رہا ہے، جس کی نیٹو کی شمولیت کی کوشش کو ترکی نے دہشت گردوں کی اعانت کا الزام لگا کر تقریباً ایک سال سے روک رکھا تھا۔ ترکی قرآن سوزی کے خلاف سب سے زیادہ احتجاج کرنے والے ملکوں میں شامل رہا ہے۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے وزارت خارجہ کے ایک ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ترک وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے اسٹاک ہولم پر زور دیا کہ وہ قرآن سوزی کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ فیدان نے سویڈن کے ہم منصب ٹوبیاس بلسٹروم سے فون پر بات کی، جس میں سویڈن کی نیٹو میں شمولیت پر بھی گفتگو ہوئی۔nاس ماہ کے اوائل میں سویڈش حکومت نے کہا تھا کہ وہ پبلک آرڈر ایکٹ میں اس طرح ترمیم کے امکانات پر غور کرے گی جس سے پولیس کے لیے ملک کی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث بننے والے مظاہروں کو روکنا ممکن ہو سکے۔
0 Comments