سال میں کچھ تاریخیں خاص ہوتی ہیں-15 اگست بھی ایک ایسی ہی خاص تاریخ ہے-انڈیا کی تواریخ میں یہ سنہرے حرفوں میں لکھا جانے والا دن ہے.1947 پندرہ اگست کو ہمارا ملک آزاد ہوا-انڈیا ایک غلام ملک تھا- اس پر انگریز حکومت کرتے تھے لیکن ایک لمبے عرصے تک جدوجہد کے بعد یہ ملک آزاد ہوا-اس لیے ہم لوگ ہر سال 15 اگست کو یوم آزادی مناتے ہیں۔یہ پورے ملک میں منایا جاتا ہے۔اس دن لوگ ایک جگہ جمع ہوتے ہیں۔قومی ترنگا لہرایاجاتا ہے۔قومی ترانے گائے جاتے ہیں۔جلوس نکالا جاتا ہے-مختلف جگہوں پر مجلس سجائی جاتی ہے- لیڈر تقریر کرتے ہیں۔مٹھائیاں تقسیم کیا جاتا ہے۔ثقافتی پروگرام کرائے جاتے ہیں۔پورے بھارت میں یوم آزادی کا جشن جوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔قوم کے رہنماؤں کے شہادت اور قربانی کے بدولت ہمارا ملک بھارت غلامی سے آزاد ہوا- ہزاروں وطن پرستوں نے وطن کی آزادی کے لیے جان قربان کر دی- کئی سالوں کی جدوجہد کے بعد ملک کو آزادی ملی۔ہمارے لیے 15 اگست محض ایک تاریخ نہیں ہے.بلکہ15 اگست وہ امانت ہے جو ہمارے بڑوں نے لاکھوں قربانیاں دینے کے بعد ہمارےحوالے کی ہیں۔15 اگست وہ سحر ہے جس کی تلاش میں کئی ستارے ڈوب گئے۔
ملا نہیں ہمارا وطنِ ہم کو تحفے میں
جو لاکھوں دیپ بجھے ہیں تو یہ چراغ جلا
یہ ملک ہمارے اکابرین کی خوابوں کی تعبیر ہے۔یہ حضرت شیخ الہند کے سارے جذبوں کی تصویر ہے۔آج کے دن ہمیں اپنے آباء واجداد کی بےمثال قربانیوں کو بھی خراج عقیدت پیش کرنا ہے۔ہمارا وطن اس وقت اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔کچھ سیاسی رہنماؤں کی اپنی نادانیاں، اور کچھ دشمنوں کی ریشہ دوانیاں، ہر طرف مہنگائی،فسادات کے ڈیرے,گھمبیر اندھیرے۔بڑی دور سویرے ہیں.مذہبی، فرقہ پرستی اختلافات نے شدت پسندی کو فروغ دینا شروع کر دیا ہے۔
ہم کو یہ شعلے نہیں ، چاہت کی شبنم چاہئے
ہم کو یہ خنجر نہیں ، زخموں کا مرہم چاہئے
مستقل نفرت کے بدلے ،محبت پیہم چاہئے
متحد ہوکر جئیں ، تو ایک طاقت ہم بھی ہیں
آج ہم آزادی کے بعد تقریباً 77 سال کا سفر طئے کر چکے ہیں لیکن آج اِس ملک کی تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے۔اور آزادی کے حقیقی ثمرات سے انڈیا کے عوام محروم دکھائی دیتے ہیں۔جدوجہد آزادی کے معماروں نے انڈیا کو جس راہ پر گامزن کرنے کا خواب دیکھا تھا، اُس راہ سے انڈیا نے خود کو الگ کر لیا ہے۔اور اب عالمی طاقتوں کا آلہ کار بنتا جارہا ہے۔ایسے میں یہ سوال اب بھی تشنہ جواب ہے کہ کیا واقعی آزاد ملک کا خواب پورا ہوا ہے؟ آزاد انڈیا کا خواب اُسی وقت پورا ہوگا جب پورا انڈیا ترقی کرے گا۔ پسماندہ افراد کو ترقی کے عمل میں شامل کیا جائے گا۔ مجروح اور پچھڑے ہوئے لوگوں کو مین اِسٹریم میں لایا جائے گا۔ ہم اکثر اپنے ماضی کی حصولیابیوں پر اِنتہائی مسرت کا اظہار کرتے ہیں، لیکن اُن کامیابیوں پر مطمئن ہوجانا غلط ہوگا۔آزادی کا مطلب ہر شخص کوکھلی فضا میں سانس لینے کا حق ہے۔آزادی ایک بیش بہا نعمت، قدرت کا بیحد انمول تحفہ اور زندگی جینے کا اصل احساس ہے۔ اِس کے برعکس غلامی و عبودیت ایک فطری برائی،کربناک اذیت اور خوفناک زنجیر ہے۔اِس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ جس طرح معاشرے میں شخصی آزادی نہایت اہم ہے اُس سے کہیں زیادہ اجتماعی آزادی کی اہمیت و ضرورت ہے۔یا یوں کہئے کہ آزادی ایک عظیم نعمت ہے،اِس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی چیز نہیں اور اِس کی حفاظت ہماری اجتماعی اور قومی ذمہ داری ہے۔یومِ آزادی ایک خاص اہمیت کا حامل اور حب الوطنی کے جذبہ سے بھرپور ایک خاص دن ہے۔ برطانوی تسلط سے آزادی انڈیا کی عوام نے طویل جدوجہد کے بعد حاصل کی تھی۔15اگست ملک کے یوم آزادی کےطور پر ہی نہیں بلکہ اِسی اجتماعی جذبے کو یاد کرنے کیلئے منایا جاتا ہے۔انڈیاکےکروڑوں عوام کو سوچنا چاہئے کہ جشنِ آزادی محض ایک رسم کا نام نہیں ہے۔بلکہ آزادی کے بعد سے اب تک ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا، اپنی قومی پیش رفت، ترقی و بہبود کی رفتار، آزادی کے ممکنہ ثمرات اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ملک کی سالمیت کی بقاء کے سلسلے میں اپنی کاوشوں کے محاسبہ کا نام ہے۔ یومِ آزادی دراصل خود احتسابی کا دِن ہے۔آج ہم یہ عہد کریں کہ جس طرح ہم سب نے مِل کر ملک کی آزادی حاصل کی ہے اُسی حوصلہ و جذبہ سے سرشار ہو کر انڈیا کو عظیم ملک بنائیں گے۔75سالہ طویل عرصہ کے گزر جانے کے بعد انڈیا دنیا کی سب سے کامیاب جمہوریت میں سے ایک ہے اور اب وہ آزادی کے سفر سے ایک ترقی یافتہ ملک بننے کے نصب العین کی طرف بڑھ رہا ہے۔ لیکن منزل کے حصول میں اِسے غربت، بے روزگاری اور ایسے ہی کئی اہم مسائل سے آزادی حاصل کرنا ابھی باقی ہے۔ مذہب کے نام پر منافرت، فرقہ وارانہ تشدد عام ہے۔ آج ملک بھر میں نفرت، ہجومی تشدد، فرقہ پرستی کے واقعات دیکھنے کو مِل رہے ہیں۔اقلیتی طبقہ کو ہر لحاظ سے تکلیف پہنچائی جا رہی ہے.مسلمانوں کی حب الوطنی کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ خوف و ہراس کے ماحول میں بے قصوروں کی جانوں کا اتلاف ہو رہا ہے۔منی پور کے ابتر اور پُر تشدد حالات نے ہمارے اجتماعی ضمیرکو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ہریانہ میں مسلمانوں کے خلاف یکطرفہ کارروائی انصاف کے ساتھ سنگین مذاق ہے۔ریلویزپروٹیکشن فورس آر پی ایف کے ایک کانسٹیبل نے جس طرح مسلم مسافروں گولی مارکر ہلاک کیا، اس سے لگتا ہے کہ یہ ایک سازش کا حصہ ہے۔مہنگائی بڑھتی جارہی ہے۔گھریلوں روز مرہ استعمال اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ایک غریب کا جینا مشکل ہے۔ملک میں نفرت کا ماحول پھیل رہا ہے۔اس وقت ملک کے جو تشویش ناک حالات ہیں وہ سب کے سامنے ہیں،ہر شعور رکھنے والا جانتا ہے۔اسلامی شعائر کے خلاف دن بہ دن دائرہ تنگ کیاجارہاہے،حالات نازک سے نازک تر ہوتے جارہے۔ شرعی احکام اور شعائرِ اسلام پر حملے ہو رہے ہیں۔اِن ساری باتوں کو ذہن میں رکھ کر سوچیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حالات کے پیشِ نظر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انڈیا آج بھی آزادی کا منتظر ہے۔
ڈاکٹر تمیم احمد قاسمی چنئی ٹمل ناڈو۔چیرمین۔آل انڈیا تنظیم فروغ اردو 9444192513
شعبہ نشرواشاعت۔انجمن قاسمیہ پیری میٹ چنئی ٹمل ناڈو انڈیا
allindiatanzeemfarogeurdu@gmail.com
0 Comments