نئی دہلی: صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشدمدنی نے میڈیا ٹرائل سے متعلق سپریم کورٹ کے حکم پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم عدالت کی اس سخت ہدایت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند 7 اپریل 2020 کو کورونا وائرس کو مرکز نظام الدین سے جوڑ کر تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں اور بالخصوص مسلمانوں کی شبیہ داغدار کرنے اور ہندو و مسلمانوں کے درمیان نفرت پھیلانے کی دانستہ سازش کرنے والے متعصب ٹی وی چینلوں اور فرقہ پرست پرنٹ میڈیا کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کررکھی ہے،جس پر اب تک 15 سماعتیں ہو چکی ہیں،جس میں جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے اور سنجے ہیگڑے اور دیگر وکلاء پیش ہوتے رہے ہیں۔لیکن اب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں آیا ہے،کیونکہ مرکزی حکومت ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے،لیکن ہماری متعصب میڈیا پر لگام کسنے کی جدوجہد مثبت نتیجہ آنے تک جارہی گی ان شاء اللہ۔مولانا مدنی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آئین نے ملک کے ہر شہری کو اظہار رائے کی مکمل آزادی دی ہے،لیکن آزادی اظہار رائے کی آڑ میں دانستہ طور پر دل آزاری، اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کی کردار کشی اور اس کے ذریعہ اشتعال انگیزی پھیلائی جاتی ہے ہم اس کے سخت خلاف ہیں۔لیکن حالیہ چند سالوں میں متعصب میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف ہورہی مسلسل منفی رپورٹنگ سے مسلمانوں کی آزادی اوران کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے،جو آئین میں دیئے گئے رائٹ ٹو لائف کے بنیادی حقوق کے صریحا خلاف ہے۔انہوں نے آگے کہاکہ میڈیا کا ایک بڑا حلقہ اپنی رپورٹنگ کے ذریعہ معاشرے میں مذہبی نشہ پلا کر فرقہ پرستی کا جو زہر بو رہا ہے وہ کورونا وائرس سے زیادہ خطرناک ہے۔افسوس کہ یہ متعصب نیوز چینل عوام کے بنیادی مسائل پر گفتگو کرنے کی جگہ منصوبہ بند طریقے سے نفرت کی تشہیر میں لگے رہتے ہیں۔ڈبیٹ اور مباحثوں کے ذریعہ ایسی رپورٹیں دکھائی جارہی ہیں جس سے سماج میں فرقہ وارانہ صف بندی ہو اور مذہبی شدت پسندی کو بڑھاوا ملے اور نفرت کی سیاست کرنے والے لوگ اپنی سیاست کو پروان چڑھا سکیں۔مولانا مدنی نے کہا کہ ایک بڑا حلقہ اقلیتوں،کمزور طبقات اور خاص کر مسلمانوں کے معاملے میں جج بن جاتا ہے اور ملزم کو مجرم بناکر پیش کرنا ایک عام سی بات ہوگئی ہے،جیسا کہ ماضی میں دہشت گردی اور فسادات کے الزام میں گرفتار لوگوں کو لیکر اسی طرح کا رویہ اختیار کیا جاتا رہاہے۔ لیکن افسوس جب بعد میں عدالت انہیں بے قصور قرار دیکر باعزت بری کردیتی ہے تو میڈیا کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ گرفتاری پر بریکنگ نیوز چلاتے ہیں اور بری ہونے پر ایک لائن کی خبر دکھانا بھی انہیں گوارا نہیں، اس کی سینکڑوں مثالیں ہمارے پاس موجود ہیں۔اس کی ایک اہم مثال اکشر دھام مندر حملہ مقدمہ میں مفتی عبدالقیوم اور ان کے ساتھیوں کا ہے جن کوذیلی عدالت نے پھانسی اور عمر قید کی سزائیں سنا ئی تھیں، لیکن جب یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو سپریم کورٹ نے مفتی عبدالقیوم سمیت تمام ملزمین کو نہ صرف باعزت بری کیا بلکہ خاطی افسران پر کارروائی کیئے جانے کا حکم بھی جاری کیا،ان کے بری ہونے پر کسی میڈیا نے کوئی نیوز نہیں چلائی لیکن جب ان کی گرفتاری ہوئی تھی تو میڈیا نے ان کو پہلے ہی مجرم بناکر لوگوں کے سامنے پیش کردیا تھا۔
میڈیا کا یہ دوہرا رویہ ملک اور اقلیتوں کے لئے انتہائی تشویشناک ہے،انہوں نے سوال کیا کہ آزادی اظہار رائے کے نام پر آئین کی دھجیاں اڑانے والے اور یکطرفہ رپورٹنگ کرنے والے ملک کے وفادار ہوسکتے ہیں؟ دراصل میڈیا کے اس رویے سے مسلمانوں کا نہیں بلکہ ملک کا بڑا نقصان ہو رہا ہے، ایسے میں یہ ضروری ہے کہ سماج میں نفرت پیدا کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی ہونی چاہیے۔مجھے عدالت سے پوری امید ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن پر کوئی ایسا فیصلہ ضرور سنائی گی جس سے نفرت کا یہ کھیل ہمیشہ کیلئے ختم ہوسکے۔
تاہم سپریم کورٹ کا جو تازہ حکم آیاہے اورجس میں مرکزی وزیرداخلہ کو تین ماہ کے اندرضابطہ تیارکرنے کی ہدایت کی گئی ہے وہ ایک اہم پیش رفت ہے، امید کی جانی چاہئے کہ حکومت اب اس حکم کی حساسیت اوراہمیت کو نہ صرف سمجھے گی بلکہ میڈیا کے لئے ایک ایساضابطہ تیارکرے گی جس سے اس کو لگام دی جاسکے۔ مولانا مدنی نے آخرمیں کہاکہ میڈیاکی بے لگامی اورغیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ سے فرقہ پرستوں کو فائدہ توپہنچتاہے لیکن اس سے ملک کے امن واتحادکو جو نقصان پہنچ چکاہے اس کی تلافی آسان نہ ہوگی، اس لئے میڈیا ٹرائل پر بہرطورپابندی لگنی چاہئے۔
0 Comments