Latest News

اسلاف کی روایتوں کا معتبر حوال۔ مجاہد ملت مولانا محمد ظہور صاحب قاسمی مرحوم: فتح محمد ندوی۔

دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں پہلی مرتبہ 2006 میں مولانا ظہور صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ سے شرف نیاز حاصل ہوا .اس پہلی شرف باریابی پر آپ کی بے پناہ شفقت درد مندی اور دل سوزی کا نقش دل پر ثبت ہوگیا جیسے جسے میں ان کے قریب آتا گیا یہ نقش مزید گہرا ہوتا گیا تعلق کا یہ تسلسل ہمیشہ باقی رہا کبھی تجدید مراسم کی نو بت ہی نہیں آئی۔کوئی نہ کوئی سبیل یا صورت ہمیشہ ان سے ملاقات کی نکل ہی آتی رائپور خانقاہ جانا ہوا یا استاذ محترم جناب مولانا محمد طیب صاحب قاسمی دامت برکاتہم العالیہ کی زیارت کے لیے عماد پور کا سفر ہوا تو مولانا ظہور صاحب قا سمی کی بارگاہ میں ضرور نیاز مندانہ حاضری ہوتی ۔  

آپ کی پیدائش 1938 . میں گاؤں عالم پور عماد پور میں ہوئی۔تعلیم کے ابتدائی مراحل بستی کے مکتبی مدرسے میں طے ہوئے۔یہاں بسم اللہ خوانی کی رسم ادا کرانے والے آپ کے مشفق استاد حافظ امیر حسن صاحب نور اللہ مرقدہ کی نگرانی میں آپ نے حفظ قرآن کریم کی کامیاب تکمیل کی ۔مزید تعلیم کے لیے آپ 1953 میں جامعہ اسلامیہ ریڑھی تاجپورہ تشریف لائے۔دو تیں سال تک یہاں عربی فارسی کی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد خادم العلوم باغوں والی مظفرنگر میں داخل ہوئے۔آخر ازہر ہند دارالعلوم دیوبند سے 1962 میں فراغت حاصل کرکے اپنی علمی پیاس بجھاکر عملی میدان میں قدم رکھا ۔۔
آپ کے تحریکی مزاج کا آغاز ہندوستان کی موقر اور ممتاز ملی تحریک جمعیۃ علماء ہند سے سے ہوا۔اس تحریک کے پلیٹ فارم سے خصوصا فدائے ملت مولانا اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ کی صحبت اور تربیت کے سبب ان میں وہی سوز دروں کی جلوہ گیری۔ نفس بیتاب کی بے قراری بلکہ جنوں شعاری پیدا ہوگئی تھی جو اس تحریک کے مشائخ کا طرہ امتیاز رہا ہے۔یعنی جس طرح عزم و حوصلے کے عنوان کے حوالے سے جمعیۃ العلماء ہند کے اکابر اور مشائخ کے کارناموں سےتاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ بلکہ جھلمل ہیں 
مولانا ظہور صاحب نے اپنے پیش رو مشائخ کی انہیں آہنی عزم و ثبات کی اداؤں کو اپنے اندر جذب کرکے آگ اور خون سے کھیلنے کا جذبہ اور سلیقہ سیکھا ۔ یہ اسی جذبہ صادق کی جلوہ گیری تھی کہ وہ نہ صرف تمام عمر ہنگامہ کارزار میں کھڑے رہے بلکہ زندگی کا لمحہ آخری ان کے جہد مسلسل۔ نفس گرم کا عنوان اور اعلان تھا ۔ 

 عام طور پر مولانا ظہور صاحب کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ آپ ایک بیباک اور نڈر ملی قائد ہیں ۔اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ آپ کی لیڈر شپ کی کوالیٹی  ممتاز اور شان انفرادیت کی حامل تھی۔بلکہ پیہم عمل اور مسلسل جدوجہد نے مرد حر کا پیکر عطاء کردیا تھا ۔آپ کی پیشانی پر تمام صفات کی قوس قزح کے باوجود انہیں حالات کی نزاکت کے ساتھ گفتگو کا شعور اور خوب سلیقہ تھا میں نے ان سے ایک مرتبہ مختلف ملی سماجی اور سیاسی امور پر تبادلہ خیال کیا ۔ اس موقع پر ہم نے ان سے بہت سے اہم سوالات کیے قاضی رشید مسعود صاحب مرحوم کے سیاسی افکار اور کردار پر اسی طرح عظیم روحانی اور سیاسی پیشوا حضرت اقدس مولانا محمد زاہد حسن صاحب قاسمی نورللہ مرقدہ کی ملی ۔ سیاسی اور دینی خدمات پر جامعہ مظاہر علوم سہارن پور کے قضیہ کے حوالے سے مدلل گفتگو ہوئی آپ نے نہایت بصیرت اور حکمت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے ایک بالغ نظر دانشور اور مدبر کی حیثیت سے جوابات دئے۔
 دنیا میں اعتبار اور محبوبیت آسانی سے نہیں ملتی اس کے پیچھے بہت سی سخت اور دشوار گزار راہوں گزرنا پڑتاہے مولانا ظہور حسن صاحب نوراللہ مرقدہ کو جو غیر معمولی شہرت اور اعتبار ملا اس میں جہاں ان کے سینے میں مخلوق کا درد رگ وپے میں لہو بن کر گردش کرتا تھا اور اسی کی حرارت اور حرکت سے ملت کے لیے وہ سرتاپا عمل بنے رہتے بلکہ ہر وقت ملت کے لیے نسخہ کیمیاکی تلاش میں سرگرداں رہتے ان سب کے باوجود ان کا تعلق اللہ تعالی سے بہت مضبوط تھاوہ کسی بھی صورت قرآن کریم کی تلاوت ۔ نماز تہجد اور ذکر و اذکار وغیرہ سے غافل نہیں رہتے ایک مومن کی زندگی میں سب سے بنیادی چیز تعلق مع اللہ ہے اور اس کے ساتھ حقوق العباد کا پاس و لحاظ اور اس کی ادائیگی کے مرحلے ہیں 
مجھے ذاتی طور پر سب سے زیادہ متاثر مولانا ظہور صاحب کی سادگی اور انکسار نے کیا ہے۔خدمت کے نام پر ان کو اگر کوئی شخص پیدل دور دراز سفر پر جانے کے لئے کہتا تو ان کے یہاں اس کا بھی انکار نہیں تھا ۔ بہت سے لوگ انہیں سائیکلوں پر لے جاتے وہ بے تکلف جاتے اور کسی اجرت یا کسی عیش و آرام کی فرمائیش کا تصور سرے خارج تھا ۔وہ تمام عمر مدح وستائش سے عاری اور صلہ و انعام کی تمنا اور چمک دمک سے کلی بے نیاز رہے ان کے سامنے صرف ایک منزل تھی کہ میری قوم رسوائی اور ذلت سے بچ جائے۔

قوموں کو مخلص اور بے لوٹ ملی رہنما آسانی سے میسر نہیں آتے ۔ مولانا ظہور صاحب قاسمی ملی قیادت کا ایسا معتبر نام اور حوالہ تھا جو اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے تھے۔ ان کے انفراد کے بہت سے حوالے اور عنوان تھے۔ آپ کی سب سے بڑی خوبی اور صفات جو انہیں مشیت ایزدی سے ودیعت ہوئی وہ ان کے پہلو میں ایک حساس اور درد و سوز سے بھرا ہوا دل تھا۔جو ان کے سینہ بسمل کی تڑپ کو دن کا راہی اور رات کا شب زنددار بنائے رکھتا ۔اللہ تعالی ان کی تمام دینی اور ملی خدمات کو شرف قبولیت عطاء فرمائے۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر