Latest News

ناچ گانے اور بلاضرورت تصویر کشی سے حاصل شدہ آمدنی ناجائز، ادارۃ المباحث الفقہیہ جمعیۃ علماء ہند کے اٹھارہویں فقہی اجتماع میں دو سو مفتیان کرام نے متفقہ طو ر پر کیں دو اہم تجاویز منظور، سہ روزہ اجتماع مفتی ابوالقاسم نعمانی کی دعاء کے ساتھ اختتام پذیر۔

نئی دہلی: ادارہ المباحث الفقہیہ جمعیۃ علماء ہند کا سہ روزہ فقہی اجتماع بمقام ادارہ فیض القران ضلع اتر دیناج پور مغربی بنگال منعقد ہوا، جس کی الگ الگ نشستوں کی صدارت بالترتیب حضرت مولانا رحمت اللہ میر رکن شوری دارالعلوم دیوبند، حضرت مفتی راشد اعظمی نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی شیخ الحدیث ومہتمم دارالعلوم دیوبند نے کی۔
اجتماع میں دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلما لکھنو، مظاہر علوم سہارن پور سمیت ملک بھر سے تقریبا دو سومفتیان کرام نے شرکت کی، جنھوں نے دو موضوعات اور ان کے ذیلی عنوانات پر تفصیل سے مناقشہ کیا اور فقہ اور اصول فقہ کی روشنی میں اپنے مقالات اور مناقشے پیش کئے، آخر میں مقرر کردہ ایک کمیٹی نے غور و خوض کے بعد بالاتفاق تجاویز منظور کیں۔ 
پہلے دن اپنے خطبہ افتتاحیہ میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے شریعت و سنت کے متبعین پر اعتراض کرنے والوں کو واضح طور پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ فقہ اسلامی میں کوئی جمود و تعطل نہیں بلکہ ہر دور میں رہ نمائی کی صلاحیت موجود ہے،اور نہ اس کی بنیاد کسی شخصی رائے پر ہے بلکہ قرآن و سنت اور اجتماعی و شورائی فیصلوں پر ہے۔ مولانا مدنی نے ایک دوسرے موقع پر اپنے خطاب میں مفتیان کرام کو متوجہ کیا کہ بر صغیر کی تقسیم ملک سے زیادہ مسلمانوں کی تقسیم ہے، انھوں نے اعتراف کیا کہ مسلمانا ن ہند نے اسلام کی سربلندی اور اس وطن کی عظمت کے لیے بیش بہا قربانیاں دی ہیں، لیکن دنیا تک ہم اپنے پیغام کو پہنچانے سے قاصر رہے ہیں، ہمیں اس پر توجہ دینی چاہیے اور ہندستان کے علماء کو عالمی سطح پر قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔

 اجلاس میں جن دو موضوعات پر تفصیلی مناقشہ ہوا،ان میں مال حرام سے متعلق چند غور طلب امور بالخصوص موجودہ دور میں کاروبار کی جدید رائج صورتوں اورناجائز ملازمتوں اورپیشوں کی شریعت کی روشنی میں درجہ بندی اور دوسرا مو ضوع اجتماعی قربانی سے متعلق بعض تحقیق طلب مسائل تھا۔اس سلسلے میں دو الگ الگ تجویز یں منظور ہوئی ہیں، ان کا خلاصہ اس طرح ہے:

*تجویز (۱)مال حرام سے متعلق چند غور طلب امور*

شریعت میں طیب اور حلال مال کو اختیار کرنے اور حرام مال سے اجتناب کرنے کی بڑی اہمیت ہے؛ لیکن عصر حاضر میں مال حرام سے متعلق مختلف شکلیں وجود میں آرہی ہیں، جن کا فقہی اور شرعی حل پیش کرنا اہل علم کا فریضہ ہے؛ چناں چہ اس سلسلے میں بحث وتمحیص کے بعد باتفاق رائے مندرجہ ذیل تجاویز منظور کی گئیں:

(۱) سود، غصب، رشوت، چوری، جوا، سٹہ اور عقد باطل کے ذریعہ حاصل شدہ مال قطعی حرام ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ اس کو اصل مالک کو لوٹانا ممکن نہ ہو تو دفع وبال کی نیت سے غرباء میں تقسیم واجب ہے، اور اس طرح کا مال اگر وراثت میں حاصل ہوا ہو اور اس کا مالک معلوم ہو، نیز واپس کرنا ممکن ہو تو مالک تک اس مال کا پہنچانا ضروری ہے۔ اور اگر مالک معلوم نہ ہو یا معلوم تو ہو؛ لیکن اس تک پہنچانا ممکن نہ ہو تو ایسے مال کو بھی فقراء پر تقسیم کرنا واجب ہے۔(۲) شریعت میں جو اُمور ناجائز ہیں، مثلاً: نوحہ کرنا، ناچ گانا اور بلاضرورت تصویر کشی وغیرہ کو ذریعہ معاش بنانا جائز نہیں ہے۔ اور ان سے حاصل شدہ آمدنی بھی ناجائز ہے۔(۳) جو امور فی نفسہ جائزہیں؛ لیکن وہ گناہ اور معصیت کا سبب بنتے ہیں، تو ان کو حتی الامکان ذریعہ آمدنی نہیں بنانا چاہئے؛ تاہم ان کی آمدنی حرام نہ ہوگی۔(۴) خریدار پر حلال مال سے ہی واجب الاداء ثمن کو اداء کرنا لازم ہے؛ لیکن اگر کسی وجہ سے حرام مال سے ادائیگی کردی تو اس سے خریدے ہوئے سامان کے منافع اس کے لئے حرام نہ ہوں گے؛ البتہ خریداری میں صرف کردہ حرام مال کے بقدر اصل مالک تک پہنچانا ورنہ فقراء پر خرچ کرنا ضروری ہوگا۔(۵) فروخت شدہ سامان کی قیمت، گاڑی یا مکان کا کرایہ، اسکول یا مدرسہ کی فیس وغیرہ ایسے شخص سے وصول کرنا جائز ہے جس کا ذریعہ آمدنی بظاہر حرام ہو۔(۶) اگر کسی شخص کے پاس حلال اور حرام مال الگ الگ ہوں اور یہ معلوم ہو کہ وہ حلال مال میں سے ہی خرچ کررہا ہے تو اس کی دعوت قبول کرنا اور اس سے ہدیہ وغیرہ لینا جائز ہے۔ اور اگر متعین طور پر معلوم ہوجائے کہ وہ حرام مال پیش کررہا ہے تو اُسے لینا جائز نہ ہوگا۔ اور اگر حلال اور حرام مال مخلوط ہو تو جو وہ اپنے حلال حصہ کے بقدر مال میں سے پیش کرے تو قبول کرنا درست ہے۔ اور اگر اس کا علم نہ ہو؛ لیکن حرام مال غالب ہو تو اس کے یہاں دعوت کھانا اور ہدیہ وغیرہ قبول کرنا جائز نہیں ہے۔(۷) کسی ایسے محلہ میں دوکان کھولنا جہاں اکثر لوگ ناجائز کاروبار میں ملوث ہوں فی نفسہ جائز ہے؛ البتہ احتیاط یہ ہے کہ ایسی جگہوں پر دوکان کھولنے سے پرہیز کیا جائے۔

*تجویز (۲)جتماعی قربانی سے متعلق بعض تحقیق طلب مسائل*

قربانی دین اسلام کا اہم شعار ہے، جس طرح قربانی کرنا عبادت ہے، اسی طرح اس کی ادائیگی میں تعاون کرنا بھی کار ثواب ہے۔ آج کل بدلتی ہوئی صورتِ حال میں اِجتماعی قربانی کی ضرورت پیش آتی ہے؛ لہٰذا دوسروں کی طرف سے قربانی کا نظم کرنے والے اَفراد اور اِداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس عمل کو عبادت سمجھ کر پوری امانت ودیانت کے ساتھ انجام دیں، کیوں کہ یہ معاملہ اپنے اندر مختلف جہتیں رکھتا ہے، اس لئے اس موضوع پر غور وفکر کے بعد مندرجہ ذیل تجاویز منظور کی گئیں:
(۱) مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی قربانی انفرادی طور پر خود کرنے کی کوشش کریں، یہ زیادہ موجب ثواب ہے؛ تاہم معتبر اجتماعی نظام کے تحت بھی قربانی کرانا جائز ہے۔ (۲) اجتماعی قربانی کے نظام میں مجموعی حصہ داروں کی نیت سے بھی جانوروں کی بلاتعیین قربانی درست ہوجائے گی۔(۳) اگر تمام شرکاء جانور میں سے اپنے اپنے حصہ کا پورا گوشت لینا چاہتے ہوں تو وزن کے ساتھ تقسیم کیا جانا یا کم از کم ہر حصے کے ساتھ گوشت کے علاوہ دوسرے اعضاء (مثلاً: سری، پائے، چربی، گردہ اور دل) کے ٹکڑے رکھ دینا ضروری ہے۔
(۴) الف:- قربانی کا نظم وانتظام کرنے والے ادارے اگر جانوروں کی قیمت کا تخمینی اندازہ لگاکر فی حصہ متعین رقم کا اعلان کردیں اور اس کے مطابق رقومات وصول کریں اور رقم کم پڑنے کی صورت میں مزید مطالبہ کرنے کی صراحت بھی کریں یا یہی طریقہئ کار ادارہ میں معروف ہو تو قبل از تعیین جانور کے ہلا ک ہونے یا عیب دار ہونے کی ذمہ داری ادارے کی ہوگی، اور تعیین کے بعد اگر ہلاکت ہو یا عیب پایا جائے تو یہ حصہ دار کا نقصان شمار ہوگا۔ب:- اگر ادارہ متعینہ رقم لے کر قربانی کرنے کی پوری ذمہ داری لیتا ہے اور رقم کم پڑنے یا زیادہ ہونے پر حصہ دار سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا تو اس طریقہ پر شرعی اُصول وضوابط کے مطابق قربانی کرنے کی اجازت ہے۔ ایسی صورت میں قربانی کرانے والے ہر قسم کے نفع ونقصان سے برئ الذمہ ہوں گے۔  
(۵) قربانی کی رقم وصول کرنے والوں کے اخراجات کو بھی (عرف کے مطابق) دیگر اخراجات میں شامل کرکے حصہ داروں سے وصول کرنے کی گنجائش ہے۔(۶) مدرسہ کے مال سے قربانی کے جانوروں کی حتی الامکان خریداری نہ کی جائے، اہل مدارس کو چاہئے کہ جانور فراہم کرنے والے لوگوں سے ادھار خریداری کا معاملہ کریں اور حصص کی رقومات حاصل ہونے کے بعد واجب الاداء رقم ان کے حوالے کردیں۔
 اس اجتماع میں جو اہم شخصیات شریک ہوئیں ہو، ان میں مولانا محمد سلمان بجنوری نائب صدر جمعیۃ علماء ہند، نائب امیر الہند مفتی محمد سلمان منصور پوری استاذ دار العلوم دیوبند، مولانا عتیق احمد قاسمی بستوی استاد دارالعلوم ندوۃالعلماء لکھنو،مولانا امیر اللہ خاں حیدرآباد، مفتی محمد شبیر قاسمی شیخ الحدیث جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد، مفتی محمد خالد نیموی، مفتی نذیر باندی پورہ کشمیر، مفتی محمد صالح الزماں اڑیسہ، مفتی محمد عثمان گرینی، مفتی اختر امام عادل، مفتی منصف امروہہ، مفتی انعام اللہ حیدرآباد، مفتی زین الاسلام، دارالعلوم دیوبند، مفتی جنید پالن پور، مفتی زید مظاہری استاذ دارالعلوم ندوۃالعلماء لکھنو، مفتی عبدالرشید کانپور، مفتی حبان، مفتی ضیاء الدین، الہ آباد، مفتی اسد اللہ، معین مفتی دار العلوم دیوبند، مفتی صالح الزماں اڑیسہ،مفتی رشید احمدکانپور،مفتی وقاص احمد دارالعلوم دیوبند، مفتی محمد صالح مظاہر العلوم وغیرہ سمیت دو سو مفتیان کرام شریک تھے۔ اخیر میں اس اجتماع کے میزبان مولانا ممتاز صاحب مہتمم ادارہ فیض القران ٹھیکری باری ضلع اتر دیناج پور نے سب کا شکریہ ادا کیا۔حضرت مہتمم صاحب دارالعلوم دیوبند مفتی ابولقاسم صاحب نعمانی کی دعا پر مجلس کا اختتام ہوا۔ ادارۃ المباحث الفقہیہ کے معتمد مولانا عبدالملک رسول پوری نے پروگرام کے کو آرڈینیشن میں کردار ادا کیا۔

سمیر چودھری۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر