Latest News

تاریخِ غزہ: رسول اللہ ﷺ کے والد ماجد غزہ تشریف لائے، پردادا ھاشم بن عبد مناف کا مزار بھی یہیں موجود۔۔۔

غزہ کو کنعانیوں نے 3500 سال قبل تعمیر کیا تھا۔ اس وقت انہوں نے اسے ’’ھزاتی‘‘ کا نام دیا تھا۔ ’’مرکز قومی معلومات فلسطین‘‘ کی رپورٹ کے مطابق فرعونوں نے اس علاقے کا نام ’’غزاتو‘‘ رکھا تھا۔ پھر اشوریوں اور یونانیوں کے دور میں اس کا نام ’’ ازاتی‘‘ ہوگیا۔ اس کے بعد عبرانیوں نے اس شہر کو ’’ فازا‘‘ کہنا شروع کردیا۔ عبرانیوں نے اسے بدل کر ’’ عزہ‘‘ کردیا اور عربوں کا دور آیا تو اس کا نام ’’ غزہ‘‘ ہوگیا۔
غزہ کا معنی کیا ہے۔ اس حوالے سے جس معنی کو ترجیح دی گئی ہے وہ ’’ ناقابل تسخیر‘‘ ہے۔ غزہ شہر اپنے نام میں ہی ناقابل تسخیر کا معنی لیے ہوئے ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے والد گرامی تشریف لائے تھے۔ یہ وہ جگہ بھی ہے جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پرداد عبد مناف کو سپرد خاک کیا گیا تھا۔
جس سال 150 ھجری یا767 عیسوی میں امام ابو حنیفہ ؒ پیدا ہوئے، اسی سال امام شافعی شہر غزہ میں پیدا ہوئے۔ امام شافعی نے غزہ سے 25 کلومیٹر دور عسقلان میں بچپن کے ابتدائی دو سال گزارے۔ اس کے بعد والدہ کے ساتھ مکہ ہجرت کر گئے۔ امام شافعی سے منسوب ہے کہ انہوں نے غزہ کی محبت میں دو شعر بھی کہے تھے۔
وإني لمشتاق إلى أرض غـزة … وإن خانني بعد التـفـرّق كتماني
سقـى اللـه أرضاً لـو ظفرت بتربـهـا… كحلتُ به مـن شدة الشوق أجفانـي
مشہور سیاح ابن بطوطہ نے بھی 1355 میں شمالی مصر کے شہر صالحیہ سے نکلنے کے بعد غزہ کا رُخ کیا اور کئی دن غزہ میں قیام کیا تھا۔ ابن بطوطہ نے لکھا "ہم پیدل چلتے ہوئے غزہ شہر تک پہنچے جو مصر کے ساتھ لیونٹ میں پہلا مقام ہے۔ اس کا قطر چوڑا ہے۔ اس میں بہت سی خوبصورت عمارتیں، بازار اور مساجد ہیں۔ اس پر بہت سی عمارتیں اور دیواریں ہیں۔ اس میں حسن مسجد ہے۔ یہ وہ مسجد ہے جس میں اب نماز جمعہ ادا کی جاتی ہے۔ اس مسجد کو امیر معظم جاولی نے تعمیر کرایا تھا۔ یہ مسجد بڑی خوبصورتی سے بنائی گئی ہے۔ اس کا منبر سفید سنگ مرمر سے بنا ہوا ہے۔
ابن بطوطہ نے اپنی مشہور کتاب "تحفة النظار في غرائب الأمصار وعجائب الأسفار” میں اس سفر کی دیگر تفصیلات بیان کی ہے۔
وہ عرب جن سے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنیہ نے ابوبکر صدیق کی خلافت کے وقت غزہ فتح کیا تھا، ان کا اس شہر سے اسلام سے پہلے اور بعد میں گہرا تعلق تھا۔ یہ عرب اپنی تجارت اور سفر کے دوران اس میں آتے تھے۔ یہ تجارتی راستوں کا ایک گیٹ وے تھا۔ قرآن کی سورت قریش میں مذکور دو مشہور سفروں میں سے ایک کا ہدف تھا۔ قریش کے تاجر سردیوں میں یمن اور گرمیوں میں غزہ اور مضافات کا سفر کرتے تھے۔ قرآن کریم میں سورۃ قریش میں انہیں دو سفروں کا ذکر ہے۔
ہاشم بن عبد مناف جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پردادا ہیں اور جن سے بنو ہاشم کا آغاز ہوتا ہے کا انتقال غزہ کی جانب موسم گرما کے سفروں میں سے ایک کے دوران ہوگیا تھا۔ انہیں وہیں دفن کیا گیا اور ان کا مزار ہے اب بھی "سید ہاشم مسجد” میں ہے۔ اس مسجد کو مملوکوں نے شہر کے "الدرج” محلے میں تعمیر کیا تھا۔ 1850 میں عثمانی سلطان عبدالحمید نے اس کی تزئین و آرائش کی تھی۔ اس لیے اس شہر کو کبھی کبھی "غزہ ہاشم” بھی کہا جاتا ہے۔
غزہ کی قدیم تاریخ میں ہمیں ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبداللہ بن عبدالمطلب جب 25 سال کے تھے تو قریش کے ایک قافلے کے ساتھ غزہ گئے تھے۔ یہ قافلہ شام اور فلسطین گیا تھا۔ قافلہ واپسی پر یثرب شہر سے گزرا تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ایک بیماری میں مبتلا ہوگئے۔ اس وقت عبداللہ بن عبد المطلب یثرب میں اپنے ماموں کے قبیلے بنو عدی بن النجار کے پاس رہنے پر مجبور ہوگئے۔ وہ بنو عدی کے ہاں ایک ماہ تک مقیم رہے۔ اس وقت ان کی اہلیہ آمنہ بنت وھب دوسرے ماہ کے حمل سے تھیں اور مکہ مکرمہ میں ان کی واپسی کا انتظار کر رہی تھیں۔
جہاں تک ان کے ساتھیوں کا تعلق ہے تو انہوں نے اپنا سفر جاری رکھا اور جب وہ مکہ پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب نے ان سے اپنے بیٹے عبداللہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا ہم نے ان کی بیماری کی وجہ سے انہیں ان کے ماموں کے پاس چھوڑ دیا۔ عبد المطلب نے اپنے سب سے بڑے بیٹے حارث کو یثرب (مدینہ منورہ) روانہ کیا۔ حارث مدینہ منورہ پہنچے تو انہیں پتہ چلا کہ ان عبد اللہ بن عبد المطلب کی وفات ہوگئی ہے اور ان کی تدفین بھی وہیں ہوگئی ہے۔ اس کے چند ماہ بعد حضرت آمنہ بنت وھب کے ہاں سید المرسلین، خاتم النبین اور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد ہوئی۔

بشکریہ: روزنامہ خبریں (پورٹل)

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر