Latest News

مولانا ابوالکلام آزاد کی حیات وخدمات اورغباخاطر: ڈاکٹر تمیم احمد قاسمی۔

۱۱ نومبر کو ہمارے ملک میں ہر سال بھارت کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ازاد کی یوم پیدائش کے موقع پر
 National Education Day 
منایا جاتا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا اصل نام محی الدین احمد تھا۔ ان کے والد بزرگوار محمد خیر الدین انھیں فیروزبخت تاریخی نام کہہ کر پکارتے تھے۔ مولانا 1888ء میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ والدہ کا تعلق مدینہ سے تھا سلسلہ نسب شیخ جمال الدین افغانی سے ملتا ہے جو اکبر اعظم کے عہد میں ہندوستان آئے اور یہی مستقل سکونت اختیار کرلی۔ تاہم مولانا آزاد کے انتقال کے بعد انہیں ملک کے سب سے بڑے اعزاز بھارت رتن سے بھی نوازا گیا۔ انہوں نے مسلمانوں میں تعلیمی بیداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔تحریک آزادی کے عظیم مجاہد بھارت کے سب سے پہلے وزیر تعلیم ہندوستان کی آن بان شان ، امام الھند مولانا ابولکلام آزاد رحمتہ اللہ علیہ کی موضوعات ومواد ان کے اسلوب میں علم کی گہرائی کا احساس چسپاں ہے۔مولانا ابوالکلام کے نثر ی اسلوب میں ان کی زندگی اور خاندانی پس منظر کا بھی بڑا عمل دخل ہے اور ان کے خطیبانہ آہنگ کابھی۔ اسی طرح کم عمری میں انھوں نے جو کچھ حاصل کیا ہے.اس سے بھی کسی خود اعتمادی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مولانا ابوالکلام آزادؔ ایک ایسی ہی شخصیت کا نام ہے جو آج بھی ہماری بے توجہی کے باوجود زندہ ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ مولانا آزادوہ دیدہ ور تھے جونرگس کے ہزاروں سال آنسو بہانے کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ صرف چودہ سال کی عمر میں مشرقی علوم کا نصاب مکمل کرلینا اور پندرہ سال کی عمر میں ماہنامہ جاری کرنا ان کے لیجینڈ ہونے کا ثبوت ہے۔ وہ ایک جادو بیان خطیب، بے مثال صحافی، اصول پسند سیاست داں، قوم وملت کا ہمدرد رہنما اور مفسرقرآن ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی طرز کے ایک منفرد انشائ پرداز بھی تھے۔ ان کے خطوط کا مجموعہ’’غبار خاطر‘‘ ان کے اسلوب کا نادر تحفہ ہے۔قلعہ احمد نگر میں اسیری کے دوران مولانا آزاد نے یہ خطوط لکھے تھے۔ حالانکہ یہ اسیری بڑی سخت تھی۔ کسی سے ملنے اور خط و کتابت پر بھی پابندی تھی۔مولانا کسی سے مراسلت نہیں کرسکتے تھے مگر دل کا غبار نکالنے کے لیے قلم و قرطاس تو تھے ہی۔یہ ’’غبار‘‘ جب یکجا ہو گئے تو ’’غبار خاطر‘‘ کی صورت میں سامنے آئے اور آج بھی اس کا’’ غبار‘‘ ہر قاری اپنے دماغ میں محسوس کرتاہے۔مولانا ابوالکلام آزاد کی زندگی کی مذکورہ خصوصیات کا سرا اگر ان کے اسلوب سے جوڑیں تو از خود واضح ہوگا کہ ان کے اندر خود داری اور خود اعتمادی کا جوہر تھا۔دانشورانہ روایت اور خاندانی وجاہت کے ساتھ ان کے اندر صحافیانہ مزاج تھا۔ ظاہر ہے جب یہ تمام خصوصیات مدغم ہوکر ایک انسان کا اسلوب ٹھہرے تو اس میں پرشکوہ انداز ہوگا، جیسا کہ ہم مولانا ابوالکلام آزاد کے اسلوب میں پاتے ہیں۔اس بات کی بھی وضاحت ضروری ہے کہ کسی صاحب قلم کے اسلوب میں موضوعات ومواد کی وجہ سے معمولی تبدیلی تو آتی ہے، تاہم اس تبدیلی میں صاحب قلم کی انفرادیت ڈھونڈلیتے ہیں۔مولانا ابوالکلام نے مختلف موضوعات پر خامہ فرسائی کی ہے۔اسلامی موضوعات اور سیاسی معاملات کو زیربحث لایا ہے۔"غبار خاطر‘‘ دراصل خطوط کا مجموعہ ہے ، تاہم ان خطوط کی نوعیت علمی اور تحقیقی مزاج سے مل جاتی ہے۔ اس لیے ہم اس مجموعے میں اسلوب کے مختلف رنگ دیکھتے ہیں اور دیگر مقامات پر بھی ان کے اسلوب کے مختلف رنگ نظر آتے ہیں، تاہم ہر جگہ ان کا پرشکوہ انداز ہمیں متوجہ کرتا ہے۔(یہ بھی پڑھیں تذکرہ: مولانا ابوالکلام آزاد۔پروفیسر کوثر مظہری )الہلال اور البلاغ کے اداریے دیکھیں ان کا الگ ہی انداز ہے۔ ’’تذکرہ‘‘ کے لیے جو اسلوب اختیارکیاجاناچاہیے.مولاناآزاد وہاں وہی اسلوب اپناتے ہیں۔اسی طرح غبار خاطر میں ہمیں کوئی ایک اسٹائل نہیں ملتا بلکہ مکتوبات کے موضوعات جدا جدا ہونے کی بنا پر طرز نگارش بھی جدا جدا اختیار کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہماری ملاقات کہیں آسان اور عام فہم نثر سے ہوتی ہے تو کہیںشاعرانہ چاشنی کچھ اور ہی لطف دے جاتی ہے اور کہیں فارسی آمیز علمی زبان ہماری فہم ولیاقت کا امتحان لیتی نظر آتی ہے۔ مولانا آزاد کی اسی طرز نگارش کا ذکر کرتے ہوئے عبدالقوی دسنوی لکھتے ہیں:’’ان میں کبھی وہ انشائیہ نگار بن جاتے ہیں،کبھی کہانی کار، کبھی مورخ، کبھی فلسفی، کبھی محقق، کبھی ناقد، کبھی موسیقی نواز، کبھی انسانیت کے علمبردار اور کبھی محض ایک خط نگار۔ یہ سارے خطوط غبار خاطر میں جمع ہیں اور اردو ادب میں اہم اضافہ ہیں۔عبدالقوی دسنوی کی ان تمام باتوں سے اتفاق کیا جاسکتاہے۔ کیوں کہ انشائیہ دراصل زبان کی ترنگ ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے لفظوں کے انتخاب میں جہاں صوتی آہنگ سے سروکار رکھا ، وہیں انھوں نے تشکیل زبان میں ترنگ کو بھی سمویا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خبار خاطر کی قرأت کے دوران ہم زیر لب مسکرابھی دیتے ہیں۔ یہی وہ خصوصیت ہے کہ ہم ان کے اسلوب کو انشائیہ سے جوڑتے ہیں۔اسی طرح کہانی کے لیے بیانیہ ایک لازمی عنصر ہے اور بیانیہ اس وقت دل چسپ ہوتا ہے جب پلاٹنگ کا خیال رکھا جائے۔ ’’چڑیا چڑے‘‘ میں بیانیہ اور واقعات کے معروضی ارتباط کا طریقہ موجود ہے ۔ اس لیے ہم ’’ خبار خاطر‘‘ میں ایک بیان کنندہ ابوالکلام کو بھی دیکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ مولانا اس میں مورخ بھی نظر آتے ہیں، وہ بھی نہ صرف ایسے مورخ جو فقط اپنے زمانے کی تاریخ بیان کررہا ہو ، بلکہ اپنے سے ماقبل تاریخ کا بھی تجزیہ بھی ۔ تاریخی تجزیہ نہ صرف ابوالکلام آزاد کی علمیت کا ثبوت ہے بلکہ ان کی یاد داشت پر عش عش کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ رہی بات موسیقی کی تو اس کے متعلق طویل ترین مضمون اس میں موجود ہے۔ یہ مضمون جہاں ان کی علمیت کی طرف اشارہ کرتا ہے ، وہیں اسلام اور موسیقی کے متعلق آگاہی اور علمی استحضار کی دلیل فراہم کرتا ہے۔ اس لیے یہ عبدالقوی دسنوی کے ہر اشارے سے ان کے لیے اتفاق کرنا آسان ہے جس نے گیرائی کے ساتھ ’’ غبار خاطر ‘‘ کا مطالعہ کیا ہے۔مولانا ابوالکلام آزاد کے اسی اسلوب کی تحسین کرتے ہوئے عبدالماجد دریابادی نے قلم توڑ دیاہے۔ ان کے الفاظ میں:’’خدا جانے کتنے نئے اور بھاری بھرکم لغات اور نئی ترکیب اور نئی تشبیہیں اور نئے اسلوب ہر ہفتے اسی ادبی اور علمی ٹکسال سے ڈھل ڈھل کر باہر نکلنے لگے اور جاذبیت کا یہ عالم تھا کہ نکلتے ہی سکہ رائج الوقت بن گئے۔ حالی وشبلی کی سلاست، سادگی سر پیٹتی رہی اور اکبر الہ آبادی اور عبدالحق سب ہائے ہائے کرتے رہ گئے۔یہ سچی بات ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد کا اسلوب فقط بھاری بھرکم الفاظ سے ہی تشکیل نہیں پاتا ہے بلکہ نئی نئی ترکیبوں اور تشبیہوں نے ان کی نثرکو تازگی عطا کی ہے۔ شاعری میں تراکیب کی اپنی معنویت اور گیرائی ہوتی ہے ۔ شاید ان ترکیبوں اور تشبیہوں نے ان کی نثر کو مالامال کیا ہے۔مولاناابوالکلام آزاد نے غبار خاطر کے کئی خطوط میں عام فہم زبان استعمال کی ہے۔ بعض علامتی کہانیوں میں بھی ان کا اسلوب سادہ اورسلیس ہے۔ اس لیے کہ بظاہر مکتوب ہونے کے باوجود یہ ایک کہانی ہے۔ اورمولانا آزاد کہانی کے فن سے واقف تھے۔ مثال کے طو رپر’’چڑیا چڑے کی کہانی‘‘ کو دیکھاجاسکتاہے۔ (یہ بھی پڑھیں آزادبھارت میں ہندو مسلم اتحاد کا مشعل بردار: مولانا ابو الکلام آزاد – ڈاکٹرعبدا لرزاق زیادی )دوسری طرف جیسا کہ اوپر عرض کیاگیا شاعرانہ انداز بیان بھی اختیار کیاگیا ہے۔ یہ انداز غبار خاطر کا وصف خاص ہے۔ اس انداز بیان کے ساتھ اشعار کا استعمال بھی کثرت سے ملتا ہے۔لیکن مولانا آزاد کو پورے طور پر سمجھنا ہر کس وناکس کے بس کی بات نہیں ہے۔ کیوں کہ اس میں عربی کے اشعار کے ساتھ ایسے نامانوس الفاظ اور ترکیبات کا استعمال بھی ملتا ہے جنہیں عربی زبان سے پوری واقفیت کے بغیرنہیں سمجھا جا سکتا۔مولانا نے عربی فقرے، ضر ب الامثال اور ترکیبوں کوتو اپنایا ہی ساتھ ہی فارسی تراکیب اور الفاظ کا استعمال بھی کثرت سے کیا ہے۔غبار خاطر کا آغاز ہی فارسی کے ایک شعر سے ہوتا ہے۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مولانا آزاد اردو کے ہی نہیں عربی و فارسی کے بھی جید عالم تھے اوران کی علمیت ان کی تحریروں میں عودعود کر آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔مولانا آزاد کے ان مکتوبات میں طنز و مزاح کی چاشنی بھی ہے جو زبان کی مشکل پسندی کے باوجود ان کی تحریر کو دلچسپ اور دل نواز بناتی ہے۔ ان تحریروں میں مولانا آزاد کی شخصیت بھی جھلکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔سب سے حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ قید و بند کی صعوبت میں بھی مولانا کی رومان پسندی نہیں جاتی۔وہ اس انداز سے شرح دل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جیسے نہایت خوشگوار ماحول میں قلم کاغذ لیے بیٹھے ہوں۔ اوردنیا و مافیہا سے بے نیاز یادوں کے تہہ خانے کا در وا کر کے ہیرے جواہرات لٹالٹاکر خوش ہورہے ہوں۔ ان کے اسلوب کی یہی دلکشی ہے کہ حامدی کاشمیری ان خطوط کو خطوط نہیں انشائیہ قرار دیتے ہیں۔یہ اقتباس ملاحظہ ہو:’’ غور سے دیکھاجائے تو’’غبار خاطر‘‘ کے مکتوبات، مکتوبات سے زیادہ انشائیہ نگاری کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔ایسامعلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے حالت اسیری میں قلم ہاتھ میں لے کر اپنے حافظے میں محفوظ واقعات اور مشاہدات کو سپرد قرطاس کیا ہے اور ساتھ ہی اپنی علمیت، عقاید، افکار اور نظریات کا اظہار بھی کیا ہے۔ چنانچہ’’غبار خاطر‘‘ میں مذہب، خدا، کائنات او رغم و مسرت جیسے گمبھیر مسائل سے لے کر حریفان سقف و بام یعنی چڑیوں سے محاذ آرائی جیسے مزاحیہ واقعے کے بیان تک مصنف نے پوری ذہنی آزادی اور طبیعت کی ترنگ کے مطابق اپنے خیالات و تاثرات کو قلمبند کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی نگارشات انشائیہ نگاری ہی کے ذیل میں آتی ہیں۔ اب تک میں نے ’’غبارخاطر‘‘ سے کوئی اقتباس درج کرنے سے گریز کیا لیکن اس کے بغیران کے اسلوب پر گفتگو نامکمل ہوگی۔ چند خطوط سے منتخب یہ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں جو ان کے الگ الگ انداز بیان کو واضح کرتے ہیں:اقتباس نمبر’’موتی کے گھونسلے سے ایک بچے کی آواز عرصہ سے آرہی تھی۔ جب وہ دانوں پر چونچ مارتی تو ایک دو دانوں سے زیادہ نہ لیتی اور فوراً گھونسلے کا رخ کرتی وہاں اس کے پہنچتے ہی بچے کا شور شروع ہوجاتا۔ ایک دو سکنڈ بعد پھر آتی اور دانہ لے کر اڑجاتی۔ ایک مرتبہ میں نے گنا تو ایک منٹ کے اندر سات مرتبہ آئی گئی۔‘‘اقتباس نمبر۔۲’’… اصحاف کہف کی نسبت کہاگیا ہے۔ فَضَرَبۡنَا عَلٰی أذَانِھِم فی الۡکَھۡفِ سِنِیۡنَ عَدَداً توایسی ہی ضرب علی الاذان کی حالت ہم پربھی طار ہوگئی۔ گویا جس دنیا میں بستے تھے وہ دنیا ہی نہ رہی:کانَ لَم یَکُن بَینَ الۡحَجُون اِلی الصَّفَا۔ اَنیسٗ وَلَم یَسۡمَرۡ بَمَکّۃَ سَامِرُ!۔ اقتباس نمبر۔۳’’ایں رسم و راہ تازۂ حرمان عہد ماست۔عنقا بہ روزگار کسے نامہ بر نہ بود۔ صدیق مکرم! وہی چار بجے صبح کا جانفزا وقت ہے ، چاے کا فنجان سامنے دھرا ہے ، اور طبیعت دراز نفسی کے بہانے ڈھونڈ رہی ہے۔ جانتاہوں کہ میری صدائیں آپ تک نہیں پہنچ سکیںگی تاہم طبع نالہ سنج کو کیا کروں کہ فریاد وشیون کے بغیر نہیں رہ سکتی۔آپ سن رہے ہوں یا نہ سن رہے ہوں، میرے ذوق مخاطبت کے لیے یہ خیال بس کرتا ہے کہ روے سخن آپ کی طرف ہے:اگر نہ دیدی تپیدن ِدل، شنیدنی بود نالۂ ما۔ان تین اقتباسات میں تین طرح کے اسالیب ہمارے سامنے ہیں۔ ایک بالکل عام فہم ، دوسرا عربی شعر اورعبارت سے مملو اور تیسرا فارسی آمیز۔ ایک چوتھا اسلوب بھی ہے۔ اور یہ اس قدر دلکش ہے کہ سر دھننے کو جی چاہتاہے۔ملاحظہ ہو یہ اقتباس:’’قید خانے کی چار دیواری کے اندر بھی سورج ہر روز چمکتاہے اور چاندنی راتوں نے کبھی قیدی اور غیر قیدی میں امتیاز نہیں کیا۔ اندھیری راتوں میں جب آسمان کی قندیلیں روشن ہوجاتی ہیں، تووہ صرف قید خانے کے باہر ہی نہیں چمکتیں ، اسیران قید و محن کوبھی اپنی جلوہ فروشیوں کا پیام بھیجتی رہتی ہیں۔ صبح جب طباشیر بکھیرتی ہوئی آئے گی اور شام جب شفق کی گلگوں چادریں پھیلانے لگے گی ، تو صرف عشرت سرائوں کے دریچوں ہی سے ان کا نظارہ نہیں کیاجائے گا، قید خانے کے روزنوں سے لگی ہوئی نگاہیں بھی انہیں دیکھ لیاکریں گی۔ فطرت نے انسان کی طرح کبھی یہ نہیں کیا کہ کسی کو شاد کام رکھے، کسی کو محروم کرے۔ وہ جب کبھی اپنے چہرے سے نقاب الٹتی ہے ، تو سب کو یکساں طو رپر نظارۂ حسن کی دعوت دیتی ہے۔مولانا آزاد کے اس اسلوب میں شجاعت اور درس کا عنصرپایا جاتا ہے تاہم تبلیغی معاملات کو بھی انھوں نے ایسا شگفتہ انداز عطا کیا جو کبھی ہمیں تبلیغی تناظر اور فرحت ومسرت کے تناظر میں ملتفت کرتا ہے، توکبھی اسلوب کا سہل ترین نمونہ ہمیں اپنی جانب متوجہ کرتا ہے ۔ اس لیے یہ کہا جاسکتاہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد نے موضوعات کے مدنظر اسلوب کو تشکیل دیا ہے ۔امام الہند کا یہ اسلوب انہی کے لیے مخصوص تھا۔ الہلال کی اشاعت کے دوران دوسرے لکھنے والوں کی بھی یہ کوشش ہوتی تھی کہ وہ ابوالکلام جیسی نثر لکھیں مگر اصل اور نقل کا فرق واضح ہے۔اوپر دیے گئے یہ اقتباسات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مولانا آزاد کے اسلوب کو کسی ایک طرز اظہار کانام دے کر محدود نہیں کیاجاسکتا۔عبدالقوی دسنوی نے ٹھیک ہی کہاہے کہ وہ اپنے خطوط میں انشائیہ نگار بھی ہیں، محقق بھی، فلسفی اور مورخ بھی ،ناقد اور موسیقی نواز بھی۔کم لفظوں میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ابوالکلام آزاد نے موئے قلم سے جو نقش و نگار بنائے ہیںوہ ہر نظر کو حیرت اور روح کو تازگی عطا کرتے ہیں۔’’غبار خاطر‘‘ کی دلکشی اس کی حیات آفریں طرز تحریر ہے۔اسی دلکشی کے قربان جاتے ہوئے نیاز فتح پوری نے مولانا آزاد کو ایک خط میں لکھاتھا’’آگر آپ کی زبان میں مجھے کوئی گالیاں بھی دے تو ہل من مزید کہتارہوں گا۔‘‘اور حسرت موہانی نے اپنی حسرت کا اظہار اس طرح کیا:جب سے دیکھی ابولکلام کی نثر۔نظم حسرت میں کچھ مزا نہ رہا’’ غبارخاطر‘‘ یہ اشکال یہ بھی ہوتاہے کہ کیا خطوط بے ساختگی اس میںباقی ہے یا فقط تصنع ہی تصنع ہے۔ مولوی عبدالحق نے لکھا ہے ’’خط دلی جذبات وخیالات کا روزنامچہ اور اسرارحیات کا صحیفہ ہے۔‘‘ آل احمد سرور نے لکھاہے۔ ’’اچھا خط وہ کہا جاسکتاہے کہ جس میں لکھنے والا اپنے مخاطب سے باتیں کرتا ہوا نظر آئے ، جس میں بے تکلفی ، بے ساختگی ، خلوص فطری رنگ ۔انفرادیت اور ذاتی تاثرات کی جھلک ہو ۔ان معززناقدین کی رائے اپنی جگہ اہم ہے، مگر پہلی بات یہ ہے کہ مولانا ابوالکلام نے ’’ غبار خاطر‘‘ میں کتنے لوگوں کو مکتوب الیہ بنایا ؟ دوسری بات یہ ہے کہ کیا واقعی ان خطوط کے تبادلے ہوئے ؟ تیسری بات یہ کہ ان خطوط کو لکھتے وقت مولانا ابوالکلام آزاد نے کتابوں سے استفادہ کیا ؟ چوتھی بات یہ کہ قید وبند کی زندگی میں کتنی رنگا رنگی ہوسکتی ہے کہ ہر خط میں ذاتی احوال ہوں ؟
ان چارسوالوں میں سے دو باتیں انتہائی اہم ہیں ۔مکتوب الیہ کے تناظر میں ، دوم کتابوں کے استفادے کے معاملے میں ۔ مکتوب الیہ کے تناظر میں نواب صدر یارجنگ مولانا حبیب الرحمن شیروانی کا نام ہے ۔ ظاہر مولانا ابوالکلام آزاد نے جن مباحث کو خطوط میں پیش کیا وہ ان دونوں کے درمیان بے تکلفی کی حیثیت رکھتے ہوں ۔ ایسی بحث کو ایک سادہ بحث مانتے ہوں ۔ اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد نے علمیت کے لیے اظہار کے لیے خط لکھتے وقت کسی کتاب سے استفادہ نہیں کیا۔ گویا عملی مباحث ان کی تکلفی کے زمرے میں آتے ہیں۔ پھر جیل کی زندگی میں کوئی رنگا رنگی نہیں ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے جیل کی زندگی کے مناظر بیان کرتے تھے اور اسی تناظر میں علمی گفتگوکرتے تھے۔ رہی بات غالب کے خطوط کی تو ان کے یہاں مکتوب الیہ بہت ہیں اور سب کی ذہنی سطح ان کے سامنے تھی اور وہ قیدوبند کی زندگی میں مبتلا نہیں تھے۔ اس کے لیے ان کے یہاں بے تکلفی زیادہ اور مولانا آزاد کے یہاں کچھ کم ۔ یہی وجہ ہے کہ ’’ غبار خاطر‘‘ کے اسلوب میں ایک علمی فضا ہے اور یہی اس کی انفرادیت بھی ہے۔ترکیب ، تشبیہ ، صوتی آہنگ اور فکری ارتباط سے ایک شعری ڈھانچہ تیار ہوتا ہے ۔ ابوالکلام کی نثر میں یہ تمام خصوصیات بدرجہ اتم موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نثر کو لوگوں نے شاعری اور الہامی زبان سے ملانے کی کوشش کی ہے۔ مولانا آزاد کے اس اسلوب کے پرشکوہ انداز کی دراصل یہ تھی کہ وہ ایک متضادشخصیت تھے۔ کیوں کہ انھوںنے میدانِ سیاست ، اسلامی تناظر ، ادبی سروکار اور فکری معاملات کو یکساں طور پر وقت دیا ۔ ظاہر ہے جس انسان کے اندر متضاد صلاحیتوں اور خصوصیتوں کا انضمام ہووہ نہ صرف اپنی فکر سے ہمیں متاثر کرے گا بلکہ ان کے اظہار کے رویے بھی ہمیں سوچنے پر مجبور کریں گے ۔اس کے علاوہ مولانا ابوالکلام کی مشق ومزاولت بھی اپنی جگہ ہے ۔ کیوں کہ انھوں نے قید وبند کی زندگی کے باوجود بہت کچھ لکھا ۔ ظاہر ہے لکھتے لکھتے ایک صاحب قلم کا اپنا اسلوب متعین ہوتا چلا جاتا ہے ۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے متعلق مرزا خلیل احمد بیگ نے لکھا ہے:’’خطبات کے اسلوب کی سادگی کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ یہ اسلوب آزاد کی شعوری کوشش کا نتیجہ نہیں، بلکہ زبان کے فوری اور برجستہ استعمال کے نتیجے میں معرض ِ وجود میں آیا ہے۔یہ سچی بات ہے کہ مولانا آزاد کے اسلوب میں برجستہ پن ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی تفہیم ہر ایک کے لیے آسان نہیں ۔ کیوں کہ ان کی علمیت نے ان کے اسلوب کو گہرا اور تہہ دار بنایا ہے۔ گویا ان کو سمجھنے کے لیے مختلف میدانوں کے استعارے اور کنایوں کو سمجھنا ہوگا۔ اس لیے یہ کہنا ہے کہ ان کے اسلوب میں ثقالت ہے، کوئی مناسب ومعقول بات نہیں ہوگی۔ کیوں کہ ان کو سمجھنے کے لیے ہمیں ان تمام پہلوؤں کو نظر میں رکھنے کی ضرورت ہے جن پہلوؤں کو بروئے کار لاتے ہوئے مولانا آزاد اپنی نثر کو تشکیل دیتے ہیں۔ گویا جو چیزیں اور معاملات ہمارے لیے علمیت کے زمرے میں آتی ہیں وہ چیزیں مولانا آزاد کی زندگی کے عام معاملات سے متعلق ہیں۔ اس لیے ان کی تفہیم وترسیل ہماری ذہنی سطح سے نہیں ہوسکتی ہے بلکہ ان کی ذہنی سطح کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ (یہ بھی پڑھیں مولانا ابو الکلام آزادؔ کی نگاہ میں عورت کا مقام – ڈاکٹر شیخ نگینوی )جیسا کہ ابتدائی سطور میں یہ مفروضہ قائم کیا گیا تھا کہ معروضیت کے باوجود اسلوب کے مطالعے میں یک گونہ لچک کی کیفیت پائی جاتی ہے۔پروفیسر خلیل احمد بیگ نے مولانا ابوالکلام آزاد کی زندگی کو سامنے رکھتے ہوئے جس طرح ان کے اسلوب کا مطالعہ کیا ہے اس سے بھی اندازہ کرنا کوئی مشکل نہیں کہ اسلوب کی تشکیل میں خاندانی پس منظر اور انسان کی داخلیت کا معاملہ پوشیدہ ہوتا ہے۔اللہ تعالی مولانا آزاد کی قبر کو نور سے منور فرمائے۔اور ان کی مغفرت فرمائے آمین یا رب العالمین۔

ڈاکٹر تمیم احمد۔ وی۔ چیرمین۔تنظیم فروغ اردو چنئی ٹمل ناڈو انڈیا 9444192513

شعبہ نشرواشاعت۔ انجمن قاسمیہ پیری میٹ چنئی ٹمل ناڈو انڈیا
anjumanqasimiyah@gmail.com

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر