اتراکھنڈ کے منگلور میں واقع شمالی ہند کے مشہور صوفی حضرت شاہ عثمان جہانگیر چشتیؒ کے سالانہ عرس کے موقع پر درگاہ کے سابق سجادہ نشین پروفیسر عنوان چشتی مرحوم کی یاد میں ایک مشاعرہ کا انعقاد کیاگیا۔جس کی صدارت غالب رسول دانش نے کی اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر تنویر گوہر مظفرنگری نے انجام دیئے۔ مہمانِ خصوصی لکشمن مہاراج اور تعلیمی افسر معراج فاروقی نے شمع روشن کی۔ اس موقع پر اتراکھنڈ حکومت کی جانب سے راجیش آنند اسیر کو اس سال کا پروفیسر عنوان چشتی ایوارڈ دیئے جانے اعزاز سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ اردو کے ارتقاءکے موضوع پر اتراکھنڈ حکومت کی جانب سے ہی ڈاکٹر عبد الربّ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازے جانے پر انہیں بھی اعزازی سنددی گئی۔ اس دوران پروفیسر تنویر چشتی نے بتایا کہ ہندو مذہب کی مقدس کتاب گیتا کا اردو شاعری میں ترجمہ دل لاہوری نے کیا تھا، اب اس کے ترجمہ کو اردو کے ساتھ ہندی اور سنسکرت میں اس کے اصل منتروں کے ساتھ شائع کر کے پنڈت لکشمن مہاراج نے اعلی ادبی کارنامہ انجام دیا ہے۔ پروفیسر تنویر چشتی نے کہا کہ پروفیسر عنوان چشتی اردو ادب کا بہت بڑا نام ہے، ان کی حیات اور کارناموں پر ایک درجن سے زائد کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تصوف کی ابتداءعلم درمیان عمل اور انتہاءعشق ہے، اسلئے ہمارے یہاں علمی کارناموں کو بھی تصوف کا اظہار سمجھا جاتا ہے۔اس دوران نامور قلمکار سید وجاہت (کمل دیوبندی) اور تعلیمی افسر معراج فاروقی نے اردو ادب اور پروفیسر عنوان چشتی کے حوالہ سے اہم خطاب کیا۔اس دوران مشاعرہ میں عرش کلیری، افتخار ساغر، قمر منگلوری،عبدالرحمن سیف ، ساحل دہرادون، ذکی انجم صدیقی، قاری شاداب، شمیم قریشی منگلوری، پروفیسر تنویر چشتی، ہاشم چرتھاولی، تحسین قمر چرتھاولی، تنویر گوہر مظفرنگری، راجیش آنند اسیر، ابرار منگلوری، صاحبہ سنبل اور اسجد رانا نے شرکت کی۔ان شعراءکرام نے اپنے صوفیانہ کلام پیش کر کے سامعین سے خوب داد تحسین حاصل کی۔آخر میں کنوینر پروفیسر تنویر چشتی نے تمام مہمانوں کا شکریہ اداکیا۔
0 Comments