Latest News

سمری بختیار پور میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا تفہیم شریعت ورکشاپ کاانعقاد، بورڈ صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی شرکت۔

وجیہ احمد تصور کے قلم سے۔
سہرسہ: آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے سہرسہ ضلع کے سمری بختیار پور آمد کے دوسرے دن رانی باغ جامع مسجد میں تفہیم شریعت ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا جس میں بڑی تعداد میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اہم شخصیات نے شرکت کر اسلام پر اٹھنے والے کئی سوالات کا علماء کے ذریعے قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ اعدادوشمار کے ذریعے تفشفی بخش جوابات دئے گئے.
اس موقع پر اپنے خطاب میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے فرمایا کہ شریعت کے بارے میں آجکل غیروں کی بات چھوڑئے کچھ ماڈرن اور جدید تعلیم یافتہ اپنے بھی سوال کرتے ہیں کہ اسلام کا قانون تو 1500 سال پرانا ہے اور آج سائنس و ٹکنالوجی کا زمانہ ہے وہ قانون آج کیسے انسان کے لئے کام کے لائق ہو سکتا ہے؟ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدرذی وقار نے اس سوال پر کافی تفصیل سے روشنی ڈالی. انہوں نے کہا کہ دنیا میں انسان کے ساتھ دو چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں ایک وسائل ہیں جو ہمارے گرد و پیش ہیں جیسے یہ مائک وسیلہ ہے آواز کو بڑھانے اور دور تک پہنچانے کا، یہ کرسی وسیلہ ہے آرام سے بیٹھنے کے لئے، یہ گاڑی وسیلہ ہے جلدی منزل پر پہنچنے کے لئے. بہت سارے وسائل کے درمیان ہملوگ زندگی گذار تے ہیں. اور دوسری چیز انسان کے ساتھ اس کی فطرت ہے. انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنے دوستوں سے خوش ہوتا ہے، اپنے نقصان پہنچانے والے سے غصہ ہوتا ہے. انسان کی فطرت ہے کہ جب کوئی اچھی چیز اس کے سامنے آتی ہے تو وہ اس کو حاصل کرنا چاہتا ہے. وسائل میں تبدیلی آتی ہے لیکن فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی. انسانی فطرت ہے کہ وہ کل بھی چاہتا تھا کہ جلد سے جلد اپنی منزل پر پہنچے اور آج بھی جلد منزل پر پہنچنا چاہتا ہے بھلے وسائل بدل کر اونٹ اور گھوڑے سے ہوتا ہوا موٹر گاڑی اور ہوائی جہاز تک پہنچ گیا مگر فطرت وہی ہے جلدی سے منزل پر پہنچ جائیں. اسلئے یہ تبدیلی وسائل میں آئی ہے فطرت میں نہیں اور قانون شریعت کا موضوع انسانی فطرت ہے انسانی وسائل نہیں. قانون شریعت انسانی فطرت کو کنٹرول کرتا ہے یعنی انسانی طاقت، صلاحیت، اپنے وسائل کو کس مقصد کے لیے استعمال کرنا ہے اور کس مقصد کے لیے استعمال نہیں کرنا ہے یہی ہے قانون شریعت۔

خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ لوگ مساوات کی بات کرتے ہیں، مرد و عورت میں بھی مساوات کی باتیں کی جاتی ہیں جو سننے میں تو اچھا لگتا ہے مگر قانون فطرت کے خلاف ہیں یہ باتیں کیونکہ اللہ نے اس کائنات کو برابری کے ساتھ پیدا نہیں کیا بلکہ فرق کے ساتھ پیدا کیا. اگر اللہ اس کائنات کو برابری کی بنیاد پر پیدا کرتے تو سب لوگ صحت میں برابر ہوتے، طاقت میں برابر ہوتے، دولت میں برابر ہوتے لیکن اسلام نے مساوات نہیں انصاف کا تصور پیش کیا ہے اور مساوات اسی وقت بہتر ہے جب وہ انصاف کا تقاضا ہو. مساوات تو یہ ہے کہ ایک انسان کو دو بیٹا ہو ایک دو سال کا اور دوسرا بیس سال کا اگر دوسال کا بیٹا ایک گلاس دودھ پی کر پیٹ بھر لیتا ہے تو مساوات کا تقاضہ ہے کہ دوسرے بیٹے کو بھی جو بیس سال کا ہے ایک گلاس دودھ ہی دے مگر انصاف کا تقاضہ ہے کہ جس کو بھوک مٹانے کے لئے جو مقدار اور ضرورت ہو وہ فراہم کرے اور یہی انصاف کا تصور ہے جس کو اسلام نے پیش کیا ہے.

اس موقع پر نوجوان اسکالر اور المہد عالی حیدرآباد کے نائب ناظم مولانا مفتی عمر عابدین قاسمی مدنی نے تعداد ازدواج پر مفصل باتیں کرتے ہوئے اعداد و شمار کے ذریعے اس بات کو سامنے رکھا کہ اسلام سے پہلے سے ہی تمام قوموں میں زائد ازدواج یا عورتیں رکھنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی مختلف ممالک کے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو امریکہ، یورپ سے لیکر افریقہ یا دنیا کی ہر قوموں میں کثرت ازدواج کا چلن ہے بھلے ہی وہ بیوی کی شکل میں ہو یا گرل فرینڈ کی شکل میں... اسلام نے تو اس کو مقدس اور محترم رشتے کی دوڑ میں باندھا اور زیادہ سے زیادہ تعداد مقرر کیا. آج دنیا کا سب سے ماڈرن تہذیب امریکہ اور یورپ میں بچوں کو اپنے باپ کا پتہ نہیں رہتا ہے، شادی کے کچھ سالوں بعد شوہر بیوی علیحدہ زندگی گذارتے ہیں جس کا برا اثر ان کے بچوں پر پڑتا ہے. اسلام نے زیادہ سے زیادہ چار شادی کی اجازت دی ہے مگر اس صورت میں جبکہ سب کے ساتھ انصاف کے ساتھ مساوات کا تقاضہ پورا کرنے کی صلاحیت ہو. انہوں نے کہا کہ انسان پیدائش کے اعتبار سے لرکے اور لڑکیوں کا تناسب برابر ہوتا ہے لیکن مختلف سماجی، معاشی، جنگی حالات، حادثات وغیرہ سے جو عدم توازن پیدا ہوتا ہے اس کو توازن عطا کرنے کے لئے اسلام نے تعداد ازدواج کی اجازت دی ہے. انہوں نے بتایا کہ سبھی مذہب کے لوگ ایک سے زائد شادی کر رہے ہیں مگر بدنام مسلمانوں کو کیا جاتا ہے. انہوں نے بی بی سی کے پیش کردہ ایک اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا کہ ہندوستان میں بھی سب سے زیادہ 15.25فیصد قبائلی لوگوں میں ایک سے زیادہ بیوی رکھنے کا رواج ہے. دوسرے نمبر پر بودھ مذہب کے ماننے والے ہیں جہاں 7.97 فیصد لوگ ایک سے زیادہ شادی کرتے ہیں. جین مذہب کے ماننے والے 6.27 فیصد دوسری شادی کرتے ہیں. یہانتک کہ ہندو مذہب کے بھی 5.18 فیصد لوگ دوسری شادی کرتے ہیں جبکہ اسلام کے ماننے والے 5.7 فیصد لوگ دوسری شادی کرتے ہیں. اس اعدادوشمار سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کو تعداد ازدواج معاملے میں بدنام کرنے کی سازش ہوتی ہے.

امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کے صدر مفتی مفتی محمد سعید الرحمن قاسمی صاحب نے اسلام کے طلاق کے قانون پر بھر پور روشنی ڈالی اور اس الزام کو مسترد کردیا کہ سب سے زیادہ طلاق مسلمانوں میں ہوتی ہے. اس موقع پر انہوں نے اسلام میں شادی سے لیکر طلاق تک کے مسئلے پر تفصیلی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام میں طلاق ایک دوا ہے جب ہر طرح سے مجبور ہو کر نباہ کی کوئی صورت نہیں بچے تب جاکر طلاق پر بات پہنچتی ہے. رشتہ ازدواج میں جب نباہ کی ساری امیدیں ختم ہو جاتی ہیں تب طلاق کے ذریعے دونوں الگ ہوکر آزاد زندگی جی سکتے ہیں جب کہ دوسری قوموں میں طلاق کے لئے عدالتوں کا چکر لگا کر اپنی زندگی کا دس بیس سال لگا دیتے ہیں. مفتی سعید الرحمن قاسمی نے کہا کہ اسلام میں جائز نکاح کا مقصد شوہر اور بیوی کا رشتہ موت تک قائم رہے اور اس میں پائیداری آئے. یہاں تک کہ جائز چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ عمل طلاق ہے. فقہاء نے تو اس بات کی صراحت کی ہے کہ طلاق ممنوع ہے حرام ہے لیکن بعض ناگزیر ضرورت کی بنا پر طلاق کو جائز قرار دیا گیا ہے.

اس سے پہلے دارالعلوم دیوبند وقف کے استاد مولانا مفتی محمد نوشاد نوری قاسمی نے تفہیم شریعت ورکشاپ کے متعلق تفصیل سے جانکاری دیتے ہوئے فرمایا کہ شریعت کے مقاصد ذات باری تعالیٰ نے شرعی احکام میں اپنے بندوں کے لیے جو فوائد رکھے ہیں وہی مقاصد شرعیہ کہلاتے ہیں اور شریعت نے احکام شرعیہ میں ایسی مصلحتوں کو سب سے مقدم رکھا ہےجن کے بغیر دنیا و آخرت برباد ہو جاتی ہے. اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے شریعت کو سمجھا جائے،اسلامی قوانین سے بڑے پیمانے پر واقفیت حاصل کی جائے اور پھر اسے دوسرے لوگوں کو سمجھایا جائے۔ ایک تو یہ کہ پہلے ہم خود سمجھیں اور پھر اسے دوسروں کو یعنی سامنے والوں کو سمجھائیں یہی اس پروگرام کااصل مقصد ہے. موجودہ حالات میں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ وکلاء،قانون داں،دانشوران اور مثبت مزاج کے حامل صحافی حضرات ہوں،وکلاء،قانون داں جب قانون وشریعت اوراسکی حکمتوں کو سمجھ لیں گے تو وہ عدالتوں میں انکو بہتر طور پر پیش کرسکیں گے۔دانشور اور صحافی حضرات جب اس سے واقف ہوجائیں گے تو ذرائع ابلاغ وغیرہ میں وہ شرعی نقطہ نظر کی ترجمانی کرسکیں گے. 

اس موقع پر تنظیم آئمہ مساجد کی طرف سے حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کو ان کی ملی خدمات کے اعتراف میں "فخر ملت" ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا. اس سے پہلے قاری ابوذر لطیفی کے تلاوت قرآن اور مولانا اشرف علی ندوی کی نعت نبی سے پروگرام کا آغاز ہوا جبکہ تنظیم آئمہ مساجد کے صدر حافظ ممتاز رحمانی نے سپا ش نامہ اور ابتدائی کلمات پیش کئے اور تمام مہمانوں کا استقبال کیا. نظامت کے فرائض صحافی شاہنواز بدر قاسمی نے انجام دیا. 

اس موقع ممبر پارلیمنٹ چودھری محبوب علی قیصر، پروفیسر ڈاکٹر محمد ابوالفضل، پروفیسر ڈاکٹر محمد امتیاز انجم، ڈاکٹر محمد طارق، صحافی وجیہ احمد تصور، مولانا مفتی ظل الرحمن ،مفتی نصراللہ، ڈاکٹر ذاکر حسین، منھاج عالم، مفتی خالد مسعود، مولانا مظاہرالحق قاسمی ،مولانا ضیاء الدین ندوی، صحافی سالک کوثر امام، چاند منظر امام، مولانا آفتاب عالم ندوی، مولانا افسر امام، محمد ابوبشر وغیرہ خصوصی طور سے شریک رہے.

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر