Latest News

اہل فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونا مسلمانوں کی مذہبی ذمہ داری ہے اور مسجد اقصیٰ کا حقدار مسلمان ہی ہے، مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے مولانا شمشاد رحمانی اور مولانا ثمیر الدین قاسمی کا خطاب۔

بنگلور: مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم وقف دیوبند کے استاذ حدیث اور بہار، اڑیشہ و جھارکھنڈ کے نائب امیر شریعت حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی و قاسمی نے فرمایا کہ گزشتہ کئی دن سے فلسطین میں اسرائیلی جارحیت جاری ہے۔ اسرائیل کے میزائل حملوں اور بمباری سے تقریباً ہزاروں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور زخمیوں کی تعداد بھی ہزار میں ہے۔ شہید ہونے والوں میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اسرائیل باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت معصوم بچوں اور خواتین کو نشانہ بنا رہا ہے۔ تاکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کر سکے۔ رہائشی علاقوں، مساجد، تعلیم گاہوں، اسپتالوں غرض ہر جگہ بمباری کر رہا ہے۔ اسرائیل نے کئی دنوں سے غزہ کے لئے بجلی، پانی، ادویات اور اشیائے خور و نوش کی ترسیل روک رکھی ہے۔ فلسطین کے ان حالات کی وجہ سے ہر انصاف پسند، صاف دل اور زندہ ضمیر رکھنے والا شخص رنجیدہ ہے۔ ایک مومن تو اپنے دل میں درد، جگر میں سوز اور کلیجے میں جلن محسوس کرتا ہے، یہی وجہ ہیکہ اس وقت پوری امت مسلمہ بے چین ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ فلسطین کا مسئلہ درحقیقت قبلہئ اول مسجد اقصٰی سے جڑا ہوا ہے اور سرزمین فلسطین بہت بابرکت سرزمین ہے اور انبیاء کرام علیہم السلام کا مسکن و مدفن بھی ہے۔ مولانا نے فرمایا بعض لوگوں کو یہ شکایت ہیکہ فلسطینیوں کی جانب سے اس جنگ کی پہل ایک غلطی ہے جبکہ درحقیقت وہ لوگ حقیقت سے ناواقف ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ فلسطینیوں کی جانب سے یہ حملے اس غم و غصے کا اظہار ہے، جو اسرائیل کی ریاست کی جانب سے مظالم ڈھانے کی صورت میں فلسطینیوں میں موجود ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے اسرائیلی مظالم کی وجہ سے یہ پہل ہوئی ہے۔ نیز اسرائیل مقبوضہ مسلسل نہتے اور مظلوم فلسطینی شہریوں پر ظلم و ستم اور قتل کررہا تھا۔ مولانا نے فرمایا کہ صہیونی انتہا پسند آئے روز مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کرتے ہیں جو کہ مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ فلسطینی عوام قبلہئ اول اور مسجد اقصیٰ کے محافظ ہیں اور یہ مزاحمت کا خوف ہے جو اسرائیل کو اس کے ہدف کی طرف بڑھنے سے روک رہا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے تعلقات نے بھی ایک وجہ ہیکہ فلسطینیوں کو مجبور کیا کہ مزاحمت کے نئے مرحلے کا آغاز کیا جائے اور مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھا جائے۔ مولانا نے فرمایا کہ ملک فلسطینیوں کا، زمین فلسطینیوں کی مگر عالمی طاقتوں کی مدد سے ناجائز قبضہ صہیونیوں کا اور جب اس قبضے کیخلاف اور جانوں کی حفاظت کیلئے آواز اٹھائی جائے تو عالمی برادری اسے مظلوم کے بجائے ظالم کہتی ہے، یہ اسلام مسلمان دشمنی کہ واضح دلیل ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اسرائیل مسلسل فلسطین میں ظلم و بربریت کا ننگا ناچ کررہا ہے مگر تمام نام نہاد انسانیت دوست ممالک،حقوق انسانی کی محافظ تنظیمیں، مظلوموں کے علم بردار اور خاص طور پر اقوام متحدہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ لیکن اہلِ فلسطین یہود کے مظالم کا مقابلہ کرنے کے لیے مادی وسائل کی قلت کا شکار ہونے کے باوجود آج تک نبرد آزما ہیں، افسوس تو یہ ہیکہ مسلم حکمران بے شمار وسائل رکھنے کے باوجود بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ ایسے حالات میں جب فلسطینیوں کا کوئی ساتھ نہیں دے رہا لیکن اس کے باوجود اینے اندر ہمت، جرأت اور ایمان ایسا ہیکہ بے مثال قربانیوں کے باوجود اب تک میدان میں پا مردی سے ڈٹے ہوئے ہیں، وہ آج بھی پوری استقامت، عزم اور حوصلے کے ساتھ مغرب کی قائم کردہ ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کے خلاف پوری جرأت کے ساتھ کھڑے ہیں، نامساعد حالات کے باوجود ان لوگوں نے یہ ثابت کردیا ہیکہ ایمان والے شکست نہیں کھاتے۔ اللہ کی مدد و نصرت انکے ساتھ شامل ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ مسلمانوں کو مایوس ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے، ان شاء اللہ عنقریب وہ وقت آئے گا جب فلسطینیوں کو غاصب صہیونی حکومت پر فتح نصیب ہوگی، فلسطینی عوام سرخرو ہوں گے اور مسجد اقصٰی اور فلسطین مکمل مسلمانوں کے قبضے میں ہوگا۔ مولانا نے فرمایا کہ ہماری ذمہ داری ہیکہ ہم اہل فلسطین و غزہ کے ساتھ کھڑے رہیں، انکا جس طرح ہوسکے مدد و معاونت کریں، ان کیلئے دعاؤں کا اہتمام کریں، اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں۔ یہ نہ صرف ہمارا انسانی فریضہ ہے، بلکہ یہ ہماری دینی، اخلاقی اور شرعی ذمہ داری بھی ہے اور حمیت ایمانی اور غیرت اسلامی کا تقاضا بھی ہے۔مولانا نے فرمایا کہ ہمارا ملک ہندوستان ہمیشہ سے فلسطین اور وہاں کے اصل باشندوں کے ساتھ کھڑا ہے، لہٰذا حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ملک اور اسلاف کے سابقہ موقف پر ہی قائم رہیں اور مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ دیں۔
تحفظ القدس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ماہر فلکیات حضرت مولانا ثمیر الدین قاسمی نے فرمایا کہ فلسطین جو صدیوں سے ایک مقدس اور پاکیزہ سرزمین رہا ہے۔بے شمار انبیاء کا مسکن و مدفن ہے۔ خاص طور پر انبیاء بنی اسرائیل کا قیام مسجد اقصٰی کے ارد گرد رہا ہے، یہ جب بھی نماز پڑھنے مسجد اقصٰی تشریف لاتے تھے تو انکا رخ بیت اللہ کی طرف ہوتا تھا یعنی تمام انبیاء نبی اسرائیل کا قبلہ بھی بیت اللہ ہی رہا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک مکہ مکرمہ میں قیام فرما رہے اس وقت نماز پڑھتے ہوئے آپ ؐاس انداز میں کھڑے ہوتے کہ بیت اللہ اور بیت المقدس دونوں آپؐ کے سامنے ہوتے۔ مدینہ طیبہ آمد کے بعد رسول اکرم ؐ کو حکم الٰہی تھا کہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیں۔ سولہ یا سترہ ماہ تک بیت المقدس ہی اہلِ اسلام کا قبلہ رہا، مگر رسول اکرم ؐ کی تمنا یہی تھی کہ کعبۃ اللہ کو ہی قبلہ بنایا جائے۔ رسول اکرم ؐاس سلسلے میں وحء الٰہی کا انتظار فرما رہے تھے۔ چنانچہ کچھ عرصہ بعد آپؐ کو بیت اللہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا۔ جبکہ یہود کا قبلہ بیت اللہ نہیں ہے وہ دیوار گریہ کو سب کچھ مانتے ہیں۔ لہٰذا انبیاء بنی اسرائیل کا قبلہ بھی بیت اللہ تھا اور مسلمانوں کا قبلہ بھی بیت اللہ ہے۔ اسے دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہیکہ مسجد اقصیٰ کا قبلہ بھی بیت اللہ ہے۔ اس لحاظ سے اس پر مسلمانوں کا حق ہے۔مولانا نے فرمایا کہ جب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے نبوت کا اعلان کیا تو حضرت عبداللہ بن سلامؓ، جو یہود کے جلیل القدر عالم تھے، انکو یقین ہوگیا کہ یہ وہی نبی آخر الزمان ؐ ہیں جن کی بعثت کی پیشین گوئی صحائف قدیمہ میں درج ہیں، لہٰذا وہ دوسرے دن رسول اکرم ؐکی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؐ سے چند مسائل دریافت کیے جسکا آپؐ نے اطمینان بخش جواب دیا، جس کے بعد حضرت عبد اللہ بن سلامؓ نے ایمان قبول کرلیا۔ اسکے بعد رسول اللہؐ نے یہودیوں کو بلایا اور ان کو اسلام کی دعوت دی لیکن یہودیوں نے قبول نہیں کیا۔لہٰذا اب جس قوم نے اپنے بڑے علماء کی اور اپنی کتاب کی بات نہیں مانی وہ باطل پر قائم ہے اور مسلمان ہی حق پر ہیں۔اس لحاظ سے بھی بیت المقدس پر مسلمانوں کا حق ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ تیسری بات یہ ہیکہ جب سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس فتح کی ہے تب سے لیکر آج تک مسجد اقصیٰ میں اللہ کی عبادت، نمازوں کا اہتمام جو انبیاء بنی اسرائیل بھی کرتے تھے، آج وہ صرف مسلمان ہی کررہے ہیں، یہود و نصاریٰ اور عیسائی نہیں۔اس اعتبار سے بھی بیت المقدس پر جو حق ہے وہ مسلمانوں کا ہے کسی اور کا نہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ بیت المقدس کو مسلمانوں نے نمازوں اور عبادتوں سے آبا رکھا ہے، یہود اگر وہاں آئیں گے بھی تو اس طرح نماز نہیں پڑھیں گے جس طرح ان کے نبیوں نے پڑھی تھی، اور توحید پر جو عقیدہ انبیاء بنی اسرائیل کا تھا وہ آج کے یہودیوں کا نہیں ہے۔ یہ چوتھی دلیل ہیکہ اس اعتبار سے بھی بیت المقدس پر مسلمانوں کا حق ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ پانچوں بات یہ ہیکہ مسجد اقصیٰ کے نام کا اطلاق پورے حرم قدسی پر ہوتا تھا جس میں سب عمارتیں جن میں اہم ترین قبۃ الصخرہ ہے۔ اس کے نیچے ایک غار ہے، جو دور دور تک پھیلی ہوئی ہے، معراج کی رات حضورؐ بیت المقدس سے قبۃ الصخرہ تشریف لے گئے اور اس کی زیارت کروائی گئی۔ اس غار میں انبیاء بنی اسرائیل آکر عبادت کیا کرتے اور نماز پڑھا کرتے تھے، اس غار کو جب بھی کھولا جاتا ہے اور اس میں آج جب مسلمان جاتے ہیں تو وہ وہاں نماز پڑھتے ہیں، تو اس پانچویں دلیل کے اعتبار سے بھی مسجد اقصی کا حقدار مسلمان ہے۔مولانا نے فرمایا کہ یہود و نصاریٰ بھی حقدار بن سکتے تھے لیکن اگر وہ اس طرح عبادت کرتے جیسے ان کے انبیاء عبادت کرتے تھے، چونکہ وہ اس طرح نہیں کرتے اور خاتم الانبیاءﷺ پر ایمان نہیں رکھتے تو اس پر انکا کوئی حق نہیں ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اس وقت ارض فلسطین کے جو حالات ہیں اس سے پوری امت مسلمہ پریشان ہے، ہماری دعا ہیکہ بیت المقدس محفوظ رہے، بیت المقدس پر نماز ہوتی رہے اور بیت المقدس ہمیشہ مسلمانوں کے قبضے میں رہے اور جو اہل فلسطین و غزہ کی اللہ تعالیٰ مدد و نصرت فرمائے اور انہیں کامیابی سے ہمکنار فرمائے۔قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر دونوں اکابرین نے مرکز تحفظ اسلام کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔

Post a Comment

0 Comments

خاص خبر