عرب سے عجم تک ملت اس وقت کرب اور بے چینی میں مبتلا ہے۔ عوام و خواص سبھی عجیب کشمکش سے گزر رہے ہیں؛ ایسے میں مظلوم امت کی آخری امید ’امارت شرعیہ‘ کی تقسیم کی خبر اور جھارکھنڈ کے بعض علماء کا الگ امیر شریعت کے اعلان نے بے چینی اور گھٹن میں اضافہ کر دیا ہے۔ اخبارات اور سوشل میڈیا میں تقسیم کی خبریں ملت کو رسوا کر رہی ہیں، ایسا لگ رہا ہے کہ یہ امت یتیم اور مسکین ہو چکی ہے اور مسیحائی کے تمام روشن چراغ مایوس کن مرحلوں میں داخل ہو کر چراغ سحر بنتے جا رہے ہیں۔ بس! اب خدا خیر کرے۔
مجھ جیسے طالب علم کو کسی کی موت پر اتنا صدمہ نہیں ہوتا جتنا کسی معتبر ادارے میں آپسی اختلافات اور تقسیم سے ہوتا ہے۔ جھارکھنڈ سے وابستہ مجلس علماء وائمہ نے اگر واقعی امارت شرعیہ سے اپنی علیحدگی کا اظہار کرتے ہوئے مفتی نذر توحید مظاہری کو اپنا امیر منتخب کرلیا ہے؛ تو یہ فیصلہ کسی بھی صورت میں ملی مفاد میں نہیں۔ عہدوں کی ہوس میں اٹھائے گئے یہ قدم ملت کو رسوا کر رہے ہیں۔ جو افراد اس انتشار کے پیچھے ہیں، ان کو ملت کے مفاد میں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور امت پر رحم کرنا چاہیے۔
ملت فروشی سے کسی کا بھلا ہونے والا نہیں ہے، وہ ہمیشہ نائک کو ’کھلنائک بناتی ہے، اس سے محترم شخصیات متنازعہ اور غیر معتبر ہوجاتی ہیں، اس لئے خود ساختہ قیادت کو نوشتہ دیوار پڑھ کر تحویل قبلہ کر لینی چاہیے، اسی میں دانشمندی اور ملت کی بھلائی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ عہدہ اور منصب کے لالچ میں قبہ اور جبہ والے بھی زمینی سچائیوں کو بھول جاتے ہیں اور اپنی نسبت، بزرگیت اور صلاحیت کا ڈھونگ اور رعب دکھا کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں اور اختلاف و انتشار پیدا کرکے ملت اسلامیہ کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیتے ہیں، ذاتی مفاد کیلئے ایسے رہبر کسی بھی حد تک جاتے ہیں، جب کہ دل اور گریبان میں جھانک کر دیکھئے تو سارا جبہ خالی نظر آئے گا؛ ان کے دل میں نہ خوف خدا ہوتا ہے اور نہ ہی ملت کی بے چینی کا احساس۔ صرف اور صرف عہدہ حاصل کرکے اپنا رتبہ اور اسٹیٹس کو بڑھانا اور شہرت و دولت حاصل کرنا ان کا مقصود ہوتا ہے۔
ماضی سے حال تک مسلمانان ِ ہند کو سب سے زیادہ نقصان تقسیم سے ہوا ہے۔ خواہ وہ تقسیم ہند ہو، یا دارالعلوم دیوبند اور مظاہر علوم سہارنپور کا بٹوارہ، یا پھر جمعیۃ علماء ہند اور تبلیغی جماعت کا دو خیموں میں الگ ہو جانا۔ آج بھی ہم تقسیم در تقسیم کے دور سے گزر رہے ہیں۔ تقسیم اور بٹوارے کے یہ منحوس اثرات ہمیں کہاں لے جائیں گے، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ امیر شریعت حضرت مولانا محمد ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد انتخاب امیر کے موقع پر امارت شرعیہ میں جو حالات دیکھنے کو ملے تہے وہ سب کو یاد ہے۔ اس پر ملی و مذہبی قیادت کا اسکینگ بہی ہوچکا ہے، بار بار کچھ لکھنا اور کہنا مناسب نہیں ہے، اس وقت بھی امارت شرعیہ تقسیم کے دہانے پر کھڑی تھی، لیکن ہمارے مخلص علماء نے حکمت عملی کا راستہ اپنایا، لیکن اب ایک مرتبہ پھر اس طرح کے انتشار کے سوشے سے ملت اور سنجیدہ طبقے کی تکلیف اور بے چینی فطری ہے۔
امارت شرعیہ ملت کا ایک قیمتی سرمایہ، ملک کی آبرو، قوم کے دلوں کی دھڑکن اور ہمارے بزرگوں کی امانت ہے۔ سوسالہ اس تاریخی ادارے کو پوری دنیا میں انفرادیت کی وجہ سے پسندیدگی اور عقیدت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اس ادارے نے بے شمار نمایاں خدمات اور کارنامے انجام دیئے ہیں، اس کی ایک روشن تاریخ ہے، یہ ایک تعمیری و تحریکی اور مستحکم ادارہ ہے۔ اسے یوں ہی انتشار و افتراق کا شکار ہونے دینا نہیں چاہیے۔ اخیر میں اتحاد امت کے عظیم داعی حضرت قاضی مجاھدالاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک پیغام سنا کر اپنی بات ختم کروں گا جس میں انہوں نے کہا تھا: ’’لوگو! امت اصل ہے، امت کی بقا، امت کا تحفظ، امت کا استحکام، امت کی وحدت اصل ہے، امت رہے گی تو تحریکیں برپا ہوتی رہیں گی، امت رہیں گی تو تنظیمیں اور جماعتیں وجود میں آتی رہیں گی، جماعتیں اصل نہیں ہیں، امت اصل ہے۔ امت کبھی بانجھ نہیں رہی۔ امت باقی رہے گی تو اس میں سینکڑوں ابوالحسن ندوی اور سینکڑوں منت اللہ رحمانی پیدا ہوں گے۔ لوگو! امت کا اتحاد، امت محمدیہ والی شان اور ابراہیمی مزاج مطلوب و مقصود ہے۔
0 Comments