یقینا 'حج' ایک ایسا فریضہ ہے کہ جسے سر انجام دینے والا شخص،اپنے تمام ماضی کےصغیرہ گناہوں سے یکسر پاک ہوجاتاہےاور وہ بالکل اس بچے کی طرح ہوجاتاہے،جسے اس کی ماں نے،اسے فی الفورجناہو :یعنی جس طرح سے وہ بچہ گناہوں اور دنیاوی آلودگیوں سے سر تا سر صاف و شفاف ہوتاہے،اسی طرح ایک حج کرنے والا باسعادت انسان بھی اپنے گناہوں سے پاک ہوجاتاہے؛ مگر اس کے پیش نظر 'ادائیگی حج' سےصرف اطاعت ربانی اور خوشنودی خداوندی ہونا چاہیے۔
گناہوں اور گندگیوں سے صفائی کا یہ نمایاں تمغا اللہ رب العزت کی جانب سے بس اللہ کے ان بندوں کے لیے ہے،جو فریضہ حج اللہ کی رضا کی خاطر اداکرتے ہوں ۔ک
اس بڑے تمغے کے حصول کی خاطر ہر باحیثیت مسلمان حج کی ادائیگی میں عجلت کا مظاہرہ کرے!کیوں کہ ہمہ وقت ہر انسان کے ساتھ بحیثیت انسان بہت سے تقاضے در پیش ہوتے ہیں؛اس لیے بہت ممکن ہے کہ فریضہ حج کی ادائیگی میں ٹال مٹول اور کاہلی وسستی کے سبب ایک غیر معمولی طمغے سے محروم ہوجائے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ وسلم- نے ارشاد فرمایا:جو شخص حج کا ارادہ رکھتا ہو،اسے چاہیے حج جلدی کرے؛کیوں کہ تاخیر کی صورت میں بہت ممکن ہے کہ وہ بیمار ہوجائے،یا سواری گم ہو جائے یا اور دیگر ضرورت پیش آجاۓ۔(اخرجه ابوداؤد في السنن 250/2 حديث رقم 1732۔وابن ماجه 962/2 حديث رقم 2883۔والدارمي 45/2 حديث رقم 1784)
اللہ تبارک وتعالیٰ ہر صاحب حیثیت مسلمان کو حج کی ادائیگی میں عجلت کرنے اور ہر طرح کی کاہلی وسستی سے دور رکھے آمین یارب العالمین ۔
0 Comments